جدہ (ویب ڈیسک) سعودی عرب میں شادی کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا ‘اپنی موت کو آواز دینے‘ کے مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باجود متعدد ایسے عاشق ملتے ہیں، جنہوں نے اپنے موبائل نمبر اپنی کاروں کے شیشوں پر لکھے ہوتے ہیں تاکہ کسی لڑکی سے رابطہ ممکن ہو سکے۔
ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔سعودی عرب میں جب سے مذہبی پولیس کے اختیارات محدود کیے گئے ہیں، تب سے آزادی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے۔ سعودی نوجوانوں کی کھلے عام ملاقاتوں کا ایسا سلسلہ چل نکلا ہے، جس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ کئی نوجوان جوڑے اب کیفیز اور ریستورانوں میں ملاقاتیں کرتے نظر آتے ہیں۔نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سعودی نوجوان رومانوی رابطوں کی تلاش میں ٹویٹر، سنیپ چیٹ، اور سوارم جیسی ایپس استعمال کرتے ہیں۔ سوارم ایپ کا مقصد تو ان مقامات کی نشاندہی کرنا ہے، جہاں کوئی صارف جاتا ہے لیکن سعودی نوجوان اسے ڈیٹینگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ریاض کے ایک کیفے میں موسیقی جاری ہے۔ وہاں موجود ایک نوجوان فلم میکر کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا،
جدہ میں ایک بچی سے بدکاری کرنے والے تین لوگوں کا انجام👆🏻، پوراشہرلرزہ براندم
”پہلے سرخ گلاب بیچنا ایسے تھا جیسے کوئی منشیات بیچ رہا ہو۔‘‘ ان کے قریب ہی ایک دوسرے کے آنکھوں میں گم ایک نوجوان جوڑا بیٹھا ہوا ہے۔ اس نوجوان فلم میکر کا ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ”پہلے تو یہ بھی ناقابل تصور تھا کہ ایک خاتون کسی غیر رشتہ دار کے قریب بیٹھی ہوئی ہے۔ اب خواتین ہی لڑکوں کو کہیں باہر جانے کا کہتی ہیں۔‘‘سعودی عرب کے نوجوان ماں باپ کی نظروں سے بچنے کے لیے دوہری زندگی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ ستائیس سالہ سمیرہ سعودی دارالحکومت میں ایک فنانس ایگزیکٹیو ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے اپنے دوست کو ایک برتھ ڈے کارڈ بھیجا تھا، جو ان کی والدہ کے ہاتھ لگ گیا۔
اس سے نہ صرف وہ بلکہ ان کا دوست بی بہت خوفزدہ ہو گیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے یہ مسئلہ تو مل جل کر مسئلہ حل کر لیا تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے ایسی کسی بھی مشکل سے بچنے کے لیے دبئی میں ویک اینڈ گزارا اور گھر والوں کو دونوں نے یہی بتایا کہ وہ برنس ٹرپ کے لیے دبئی جا رہے ہیں۔سمیرہ نے بھی دیگر سعودی نوجوانوں کی طرح نیوز ایجنسی اے ایف پی سے درخواست کی کہ ان کا اصل نام شائع نہ کیا جائے۔ سمیرہ کا مزید کہنا تھا، ”سعودی معاشرے میں ہر کسی کا کوئی نہ کوئی افیئر ہے لیکن ہر کوئی جھوٹ بولتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ کوئی بھی معاشرے میں اپنی تذلیل نہیں چاہتا۔‘‘ایک بیس سالہ سعودی لڑکی کا کہنا تھا کہ اس کا بھائی فوج میں ہوتا ہے لیکن اس نے ”میرے موبائل پر ایک جاسوس سافٹ ویئر انسٹال کیا ہوا ہے تاکہ اسے میری نقل و حرکت کا پتا چل سکے۔‘‘ اسی طرح ایک دوسری لڑکی نور کا کہنا تھا، ”نوجوان سعودی قدیم روایات اور جدت کے مابین پھنس چکے ہیں۔‘‘سمیرہ کا کہنا تھا کہ شادی کے بغیر جنسی تعلقات پوری عرب دنیا میں بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے اور ایسی تعلقات سے بلیک میلنگ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، ”اگر دوستی برے طریقے سے ختم ہوئی ہے تو یہ پھر یہ پریشانی کی بات ہے۔‘‘ نصیر نامی ایک سعودی نوجوان کا کہنا تھا کہ اکثر سعودی نوجوان اپنی کسی دوست کے ہمراہ کسی ہوٹل میں قیام کرنے سے بھی گریز ہی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ”کسی سے ملاقات کے لیے سب سے محفوظ اپنی کار ہی رہتی ہے۔‘‘ (بشکریہ : ڈوئچے ویلے )