فیصلے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت تو قدرت کسی کسی کو عطاء کرتی ہے اور پھر فیصلوں کی توصیق کیلئے بھی قدرت کی خصوصی رضامندی درکار ہوتی ہے۔ اہم فیصلے کرنے کیلئے کرنے کیلئے انسان اپنے تجربے اور علم کو روشنی کو اہمیت دیتا ہے۔ دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو کھڑے کھڑے فیصلہ کرلیتے ہیں اور پلٹتے ہی اس فیصلے سے مکر جاتے ہیں یا پھر منہ کی کھاتے ہیں۔مگر جہاندیدہ اور تدبیر سے کام لینے والے افراد ابھی بھی باقی ہیں اور تاریخی فیصلے کر رہے ہیں۔ پاکستان کو درپیش مسائل کی ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں فیصلے کرنے والے بروقت اور صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم دیکھائی دیتے ہیں۔
آج پاکستان کو عسکری قیادت کی سب سے بڑی تبدیلی کا مسلئہ درپیش ہے۔ پاکستانی عوام کی دلی خواہش ہے کہ موجودہ سپہ سالار کو ہی توسیع دی جائے۔ موجودہ جنرل جناب راحیل شریف صاحب، پوری دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ نے اپنی گرانقدر خدمات کی بدولت یہ نام اور مقام حاصل کیا گو کہ آپ کے دو انتہائی اہم حوالے بھی ہیں۔ اول آپ میجر شبیر شریف شہید کے چھوٹے بھائی اور میجر عزیز بھٹی شہید کے بھانجے بھی ہیں۔ دو “نشانِ حیدر” جس خاندان کے سینے پر سجے ہوں وہ سینہ سکڑ ہی نہیں سکتا۔ ان کی رگوں میں دوڑنے والے لہو کی گرمائش پورے پاکستان میں محسوس کی گئی آپ نے ملک اور قوم سے محبت کی حرارت اور گرمائش پوری افواج میں بہت ہی قلیل وقت میں منتقل کر دی اور پاک فوج کے وقار، عزم اور حصلے کو چار چاند لگا دیئے۔
یقیناً جنرل راحیل شریف صاحب کی شخصیت کے سحر میں ساری دنیا جکڑی ہوئی ہے اور ساری دنیا پر پاک فوج کی ہیبت جنرل راحیل صاحب کی وجہ سے دوہری طاری ہے۔ آج پاکستانی افواج اسلام کے ان لشکروں کی مانند محسوس کی جاسکتی ہے جن کی کمان نامی گرامی مسلمان جرنیلوں کے سپرد ہوا کرتی تھی۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت نے پاکستانی فوج کی صلاحیتوں میں گراں قدر اضافہ کر دیا ہے۔ کسی نے خوب کہا تھا کہ “جنگیں ہتھیاروں سے نہیں اور عزم اور حوصلے سے لڑی جاتی ہے”۔ ہتھیاروں میں تو ہم الحمدوللہ خود کفیل ہیں مگر آج ہمارا حوصلہ اور عزم آسمانوں سے باتیں کرتا ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور بہت خوبی سے محسوس بھی کر رہی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے اپنی ذمہ داریاں انتہائی احسن اور پیشہ ورانہ انداز میں نبھائیں۔ گاہے بگاہے دنیا کو اپنی صلاحتوں کا جلوہ بھی دکھاتے رہے۔ دنیا کو پاکستان کی جوہری طاقت کا تو علم ہے ہی مگر ایسی عسکری قیادت بھی ہمارا ہی امتیاز ہے، یہ جنرل راحیل شریف صاحب کی شکل میں دنیا نے دیکھی۔ ہمیں یقیناً اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ ہم نے جنرل راحیل شریف صاحب کا دور دیکھا، ہم نے پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز “نشانِ حیدر” پانے والے دوشہداء کے خاندان کا چشم و چراغ اپنی تمام تر رعنائیوں اور تمکنت کے ساتھ دیکھا۔
جنرل صاحب اس طرح ہم لوگوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر چلے جائینگے، آج ساری قوم اس سکتہ میں ہے۔ ایسے سیاستدانوں کے حوالے جنہیں نا پاکستان کی فکر ہے اور نا ہی ہم جیسے پاکستانیوں کی۔ دونوں طرف کے پڑوسی ہمیں تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دونوں جانب سے ہی روز بروز کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ معصوم جانیں حب الوطنی کی خاطر اپنا نظرانا پیش کئے جا رہی ہیں، اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرنے والوں میں خواتین اور مردوں کے شانہ بشانہ اس قوم کے معصوم بچے بھی شامل ہیں۔یہ دشمن جو جنرل راحیل کی ہیبت سے خوفزدہ ہیں، کیا انکے جاتے ہی یا اپنے عہدے سے سبکدوش ہوتے ہی ہمیں کسی بڑی کاروائی کی توقع کر لینی چاہئے۔ ہمارا دشمن انتہائی درجہ کا بزدل ہے اور وہ ہمیشہ ایسے وقت کی تلاش میں رہتا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر وہ پاکستان کو کسی بھی طرح سے نقصان پہنچاسکے۔ آج کل کے حالات کے پیشِ نظر تقریباً ہر پاکستانی کے دل کی یہ خواہش ہے کہ جنرل راحیل شریف صاحب کم از کم ابھی اپنے عہدے سے سبکدوش نا ہوں اور اس وقت تک اپنی ذمہ داریاں نبہائیں جب تک حالات کی کشیدگی میں کمی نا ہوجائے۔ ملک میں کرپشن کے خلاف چلنے والی مہم کسی منتقی انجام کو نا پہنچ جائے یا کراچی میں جاری آپریشن کے نتائج واضح طور پر دنیا کے سامنے نا آجائیں یا پھر کم سے کم ضربِ عزب کو اپنے انجام کو پہنچنے دیں۔ ابھی تو آپ گئے نہیں ہیں تو دیکھیں کس ہندوستانی کس طرح سے ہمارے معصوم اور نہتے لوگوں کا خون بہا رہا ہے۔ دشمن کا توپ خانہ پھر شعلہ اگل رہا ہے پھر معصوم لاشیں سڑکوں پر پڑی ہیں کیا آپ ان لاشوں کو ایسے ہی بے یارومددگار چھوڑ کر چلے جائنگے۔ آپ جو بھی فیصلہ کر رہے ہیں، کیا اس کا یہ صحیح وقت ہے اور کوئی بھی فیصلہ بہت
سوچ سمجھ کر کیجئےگا کیونکہ آپکا یہ فیصلہ تاریخی ہوگا۔
تحریر: شیخ خالد ذاہد