بھارت اور پاکستان کے ماحولیات میں جب زہریلی تبدیلیاں آئیں، تو اُردو زبان کی لغت میں ایک نئے لفظ ’اسموگ‘ کا اضافہ ہوا۔ اِن دونوں ملکوں کے حکمران طبقے اِن ایشوز پر بہت کم توجہ دیتے ہیں جو عوام کی زندگیوں میں زہر گھولتے رہتے ہیں۔ جناب شہبازشریف جو اپنے آپ کو پنجاب کا ’خادمِ اعلیٰ‘ کہنے میں یک گونہ فخر محسوس کرتے اور عوامی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے دن رات جتے رہتے ہیں، انہوں نے آٹھ دس ماہ سے اہلِ لاہور کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ سڑکوں کی توڑ پھوڑ سے شہر کے بڑے حصے میں خاک اُڑ رہی ہے جو حلق تک پہنچ جاتی ہے۔ شہریوں کو سانس کی بیماریوں نے آ لیا ہے، حالانکہ اورنج ٹرین عوام کو آمدورفت کی آسانیاں پہنچانے کے لیے بنائی جا رہی ہے جس کے لیے چین سے قرضہ لیا جا رہا ہے، حکومت کے ناقدین کو یہ تعمیر ایک آنکھ نہیں بھا رہی اور وہ راستے میں روڑے اٹکانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ میرے عظیم دوست کے قابل فرزند جناب خواجہ احمد حسان اِس منصوبے کی نگرانی کر رہے ہیں جن کی طرف سے بار بار یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اِن عمارتوں کو گزند نہیں پہنچے گی جن کو ہمارے تاریخی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ خواجہ صاحب کی بصیرت اور دیانت پر اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ اُن کی زندگی عوام کی فلاح و بہبود سے عبارت ہے۔ اُنہیں اپنے قائد شہبازشریف کی رفاقت پر بڑا ناز ہے۔
اسموگ لاہور اور پنجاب کے دوسرے علاقوں میں چند ہی روز چھائی رہی جس کے دوران حادثات میں دو درجن سے زائد لوگ لقمۂ اجل بنے اور ہزاروں آنکھیں زہریلی ہوا سے متاثر ہونے لگیں، کیونکہ لاہور سے گجرات تک مضرِ صحت دھواں اُگلنے والے کارخانے ہمارے ماحول میں تباہ کن تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں خیر سے ماحولیات کی وزارت بھی قائم ہے جس کے سینیٹر مشاہد اﷲ خاں وزیر ہوا کرتے تھے۔ انہیں ایک روز بی بی سی پر دیا ہوا انٹرویو بہت مہنگا پڑا جو 2014ء میں عمران خاں کے دھرنے سے متعلق تھا۔ انہوں نے سوالات کے جواب میں اِن افواہوں کی تفصیلات بتائیں جو اِن دنوں پھیلتی رہتی تھیں۔ اِن افواہوں کا ذکر بی بی سی نے اِس انداز میں نشر کیا کہ اِسے فوج کے خلاف سمجھا گیا اور اُنہیں وزارت سے فارغ کر دیا گیا اور یوں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کا عمل سست پڑتا گیا۔ا سموگ کی زہر میں بجھی ہوئی چادر نے احساس دلایا ہے کہ ہماری حکومت کو ماحولیات کی صفائی پر اُسی قدر توجہ دینی چاہئے جس قدر قومی سلامتی کے تحفظ پر دی جاتی ہے، مگر اِسے بہت زیادہ تگ و دو اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے کرنا پڑتی ہے کہ مخالفین کبھی پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور کبھی دارالحکومت کی تالابندی کے لیے لشکر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں زیادہ تر خونریزی پُرامن انتقالِ اقتدار کا متفقہ طریقِ کار طے نہ ہونے کے باعث ہوئی۔ مغربی جمہوریتوں میں یہ طریقِ کار کئی صدیوں پہلے طے پا چکا ہے اور امریکہ میں اِس پر نہایت باقاعدگی سے عمل ہو رہا ہے۔ ہر چار سال بعد صدر، ریاستوں کے گورنر اور ایوانِ نمائندگان کے ارکان منتخب ہوتے ہیں اور اُنہیں پُرامن طریقے سے اقتدار منتقل کر دیا جاتا ہے۔
8نومبر 2016ء کو صدارتی انتخاب ہوا جس کے بطن سے تبدیلی کی اسموگ نمودار ہوئی اور ایک دنیا کو حیرت زدہ کر گئی۔ میڈیا میں جو جائزے، تجزیے اور تبصرے شائع ہو رہے تھے، اُن میں سے زیادہ تر ہیلری کلنٹن کے حق میں جاتے تھے جن کا ایک بہت بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق ہے۔ اُنہوں نے خاتونِ اوّل کی حیثیت سے آٹھ سال وائٹ ہاؤس میں قیام کیا تھا اور چار سال تک وزارتِ خارجہ اُن کی تحویل میں رہی۔ اُن کے مقابلے میں ری پبلکن پارٹی کے اُمیدوار جناب ڈونلڈ ٹرمپ تھے جن کا تعلق کارپوریٹ سیکٹر سے تھا اور اُنہیں سیاست کاری، قانون سازی اور امورِ مملکت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اُنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکہ میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ایک جارحانہ پالیسی اختیار کی، باہر سے آنے والوں پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا اور سفید فام امریکی جو آبادی کا ستر فی صد ہیں، انہیں روزگار فراہم کرنے، ٹیکسوں میں چھوٹ دینے اور امریکہ کو عظیم تر ملک بنانے کا مژدہ سنایا۔ وہ کھلے بندوں نسلی تعصبات کو ہوا دے رہے تھے اور امریکہ جسے ’امکانات کی سرزمین‘ کہا جاتا ہے، اُس کا چہرہ مسخ کیا جا رہا تھا۔ ٹرمپ کے اِن ’جاہلانہ‘ تصورات پر بہت لے دے ہوئی۔ اُن کے خلاف خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات بھی منظرِ عام پر آئے۔ اِن اسباب سے ری پبلکن پارٹی کے ذمہ دار لوگوں نے اپنے صدارتی اُمیدوار کو ہدفِ تنقید بنانا اور اپنی حمایت سے ہاتھ کھینچنا شروع کر دیا، مگر اِن تمام رکاوٹوں کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کا منصب اور کانگریس کے دونوں ایوانوں میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اِس اچنبھے سے چند باتیں آشکار ہوئیں۔ ایک یہ کہ امریکی عوام صدر اوباما اور ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی سے حددرجہ مایوس تھے اور سیاسی اور انتظامی چہروں کی تبدیلی چاہتے تھے، دوسری یہ کہ امریکی قوم ذہنی طور پر اِس قدر پس ماندہ ہے کہ وہ ابھی تک خاتون کو صدارت کا منصب دینے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں، تیسری یہ کہ سیاست پر کارپوریٹ سیکٹر نے غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ بلاشبہ امریکی چہرہ بڑی حد تک تبدیل ہو گیا ہے اور نئی امریکی انتظامیہ دنیا کے مختلف حصوں میں شدید مسائل بھی پیدا کر سکتی ہے، مگر پاکستان کو بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ حضرتِ غالب نے کہا تھا ع
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو
ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر اوباما نے پاکستان پر اتنے چرکے لگائے کہ اِس کا انحصار امریکی امداد پر تقریباً ختم ہو گیا ہے اور اِس کی معیشت چین کی سرمایہ کاری سے مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے قرضوں سے بھی نجات حاصل کر لی ہے۔ اِن حالات میں پاک امریکی تعلقات میں اعتدال آ جائے گا جو خطے میں قیامِ امن کے سلسلے میں مثبت کردار ادا کر سکیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد جو تقریر کی ہے، اِس میں تمام امریکیوں کو ساتھ لے کر چلنے اور تمام شہریوں کے حقوق اور مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کا واضح عندیہ دیا ہے۔ امریکہ اگر اپنے معاشی حالات بہتر بنانے اور اعلیٰ پائے کا فزیکل انفراسٹرکچر تعمیر کرتا ہے، دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں دخل دینے سے اجتناب کرتا ہے، تو وہ پوری دنیا کے لیے ایک خوشگوار تبدیلی کا تازہ جھونکا ثابت ہو گی۔ اُمید ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی ٹیم کے انتخاب میں بالغ نظری سے کام لیں گے اور ایک متوازن لائحہ عمل اختیار کریں گے۔ امریکہ جیفرسن اور ابرہام لنکن کا ملک ہے جس میں آزادی کا مجسمہ بڑی شان کے ساتھ حکمرانوں کو انسانی آزادی اور مساوات کا سبق دیتا رہتا ہے۔
پاکستان اِن دنوں مصنوعی تبدیلی کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور ہمارے عوام کی سماجی حالت یہ ہے ؎
رِستے زخموں سے ڈھانپ رہا ہے
جسم بارِ قبا نہیں سہتا
بشکریہ جنگ