تحریر : عفت بھٹی
پانامہ لیکس ذرا ٹھنڈا پڑا تو بچہ جمہورا کی ڈگڈگی سے ایک نیا تماشہ برآمد ہوا یعنی عوامی تحریک کا دھرنا اور پھر عید کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کا چاند طلوع ہونے والا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ رمضان المبارک ہے، ایک عشرہ گذر چکا ہے ، عید کی آمد آمد ہے۔ گرمی اور لوڈشیڈنگ نے جینا محال کر رکھا ہے۔ اب اس پہ دھرنے کا ٹنٹنا چہ معنی وارد؟ دھرنے کی خبر اورآتے ہی انتظامیہ عجیب کشمکش میں رہی اور بالآخر اجازت نامہ دے دیا گیا۔ دھرنا ہوا۔ حکومت کے گرانے کی باتیں ہوئی ہیں اور اگلے لائحہ عمل کی دھمکی کے ساتھ دھرنا ختم کردیا گیا۔اگلا دھرنا اور موجودہ دھرنے کا چاند جیسے ہی نظر آیا ہے تاجر برادری میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ تاجر سراپا احتجاج دیکھائے دیے کہ عید نزدیک ہے اس سے ہماری دکان داری اور کاروبار میں خلل ہوگا اور شاید سربراہ عوامی تحریک کو ان پر ترس آگیا اور انہوںنے دھرنے کی طوالت کا اعلان واپس لیتے ہوئے ایک دن پر ہی محیط کردیا۔
اب سچ تو یہ ہے کہ بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے۔ قادری صاحب یوں بھی کینیڈین شہری ہیں وہیں دھرنا دیتے تو بہتر تھا۔ اس سے پہلے خاں صاحب نے میدان ِ کار زار گرم کر رکھا تھا۔ برابر والے شیخ صاحب کا کہنا تھا ”ایناں نے واریاں لائیاں ہوئیاں نے کدرے عوام ویلی ہو کے سکھ دا ساہ نہ لے لے“۔ (انہوںنے باری لگائی ہوئی کہ کہیں عوام فارغ ہو کر سکھ کا سانس نہ لے لے)۔علامہ طاہر القادری کی آمد کا چرچا جہاں ہمارے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں رہا ہے وہیں سوشل میڈیا نے بھی خوب چرچے سے ہاتھ صاف کیا۔ ان کی آمد کے وقت سماجی رابطوں کی ایک ویب سائٹ پر لوگوں کے تاثرات کو پڑھنے کے دوران صرف دو میں انہیں ویلکم کیا گیا تھا اور اپنا لہو حاضر ہونے کی ےقین دہانی کرائی گئی باقی تمام میں گالیاں اور نا زیبا الفاظ تھے۔
اگرچہ سوشل میڈیا ابھی اس قدر میچور نہیں ہوا کہ ان کی بات کو یہاں بطور دلیل پیش کیا جائے مگر باہر کے لوگوں سے بھی اگر اس حوالے سے پوچھا جائے تو گزشتہ دھرنوں کی بدولت عوام علامہ طاہر القادری اور عمران خان سے متعلق خیر کے جملے کہنے میں بخیلی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہےوایسے شیخ رشید بھی ایک علمی شخصیت ہی رہتے تو اچھا تھا سیاست کے کیچڑ سے دامن کو داغ دار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر اب عوام بھی جان چکی ہے کہ ہمیں جگانے والے بالآخر پیسوں کے بستر باندھ کر اپنی راہ لیتے ہیں اور مک مکا کے اصولوں پہ چلتے ہوئے پھر آئیں گے کا نعرہ لگا کر اپنا بوریا بستر گول کر جاتے ہیں۔ گرتی ہوئی دیوار کا ایک دھکا اور دو کہنے والے عوام کو کام سے لگا کر خود آرام کرنے چلے جاتے ہیں۔
ابھی کل کی ہی بات ہے کہ چند گنے چنے چہروں سے تنگ عوام نے عمران خان کی آمد پر خوش آمدید کیا اور پھر ان کے ساتھ ملک بچانے اور تبدیلی کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ عوام میں جوش تھا، جذبہ تھا اور ملک کے لیے کچھ گزرنے کا عزم بھی تھا۔ مگر جیسے ہی وہ ڈی چوک پر پہنچے معلوم ہوا وہاں پر ناچ گانے کے علاوہ اور کچھ نہیں مل رہا۔ ایک شام ہوتے ہیں تفریح مہیا کی جاتی ہے تو دوسری طرف انقلاب کی صدائیں مدھم ہوتی دیکھائی دیں۔ عوام کو ملا تو صرف طاہر القادری اور عمران خان کی صورت میں ایک اور خالی کھوکھلے نعرے مارنے والے دو رہنما۔ علامہ طاہرالقادری نے سحری تک دھرنا ختم کریا اور ساتھ ساتھ تنبیہ بھی کردی کہ عید کے بعد تحریک کا باقاعدہ آغاز کیا جائے گا۔ دھرنے کے ختم ہوتے ہوئے ہی انتظامیہ اور عوام کو وہیں کچھ دوبارہ سے ملا جو حسب سابق اسلام آباد کے ڈی چوک پر ملا تھا۔ گندگی اور کچرے کا تحفہ۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ دھرنے دینے والی بھی عوام اور دھرنے سے متاثر ہونے والی بھی عوام ہی ہے۔
لاہور کے عوام کے لیے ایک طرف تو یہ خوش قسمتی ہوئی کہ انہیں ایک دن اور رات کی اذیت کے بعد اب پورا رمضان سکون مل گیا۔ تاہم عید کے بعد کون سے گل کھلتے ہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ بڑے بڑے تجزیہ نگار نجانے کیا کچھ کچھ کہہ رہے ہیں۔ مگر ایک سادہ سے بندے سے پوچھیں کہ کیا ہوگا تو اس نے آسان سے لفظوں میں کہنا ہے۔ ”کچھ بھی نہیں ہوگا“۔ میری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی کہ ہمارے سیاستدان یہ سانپ سیڑھی کا کھیل چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ اگر غلطی سے عوام نے انہیں اقتدار میں لا کھڑا ہی کیا ہے تو عوام کی بھلائی کے بجائے ان کا مال، وقت برباد کیوں کرتے ۔ سب سے بڑھ کے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خواتین کی جلسوں اور دھرنوں میں شمولیت نے لازما ان کے شواہر نامدار کے خرچے بڑھا دیے ہوں گے۔
خیر اب تو عوام بھی ان جیسی ہو گئی ہے اور جلسے دھرنے ان کے لیے ٹائم پاس ہیں۔ چلیں سب کی طرح اب ہم بھی دیکھتے ہیں کہ اب عید کے بعد نئے شو پرانے چہروں اور ہتکنڈوں کے ساتھ ہوں گے، شرکت کیجئے گا اور لطف اٹھائیے گا ۔ یا پھر ایک عدد گھر میں آئینہ ہوگا اس پر خود کا بغور جائزہ لیجیے گا شاید کہیں خود کو پہچان لیں تو پھر دھرنے کی ضرورت نہیں پڑے گا۔ ویسے ایک چھوٹی سی بات ہے۔ تبدیلی لانے کے لیے دھرنے کی نہیں خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ذرا غور کیجیے۔
تحریر : عفت بھٹی