تحریر: پروفیسررفعت مظہر
ہم تو بار بار یہ کہتے رہے کہ کپتان صاحب قول کے سچّے اوردُھن کے پکّے ہیں ،وہ جوکہتے ہیں ،کر گزرتے ہیں لیکن ہماری تو کوئی سُنتاہی نہیںتھا ۔اُنہوں نے ”تبدیلی”کا نعرہ لگایااور دیکھ لیں تبدیلی لاکر دکھادی۔کیاہوا جویہ تبدیلی ”نئے پاکستان”کی صورت میں نہیں آئی ،اُنکی زندگی میںتو آگئی ۔اُنہوںنے سوچا ہوگا کہ قوم تواب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تیاریوںمیں مصروف ہے اور وہ خودفی الحال ”ویہلے”اِس لیے ” ہنی مون”منانے کایہی بہترین موقع ہے۔
ہمیں اُن کی شادی پرخوشی توبہت ہے لیکن ساتھ تھوڑاغم بھی کہ سانحہ پشاور کے شہیدوں کا زخم ابھی تازہ ہے ،اگروہ شہداء کے چہلم کے بعدشادی کرلیتے توزیادہ بہترتھا۔ویسے توہم نے یہ بھی سُن رکھاہے کہ نکاح تو7 محرم کوہی مفتی سعیدصاحب نے پڑھا دیاتھا،اِس کاباقاعدہ اعلان جمعرات 8 جنوری کو کیاگیا،جس میںمحض گواہان ہی موجودتھے ۔بہرحال نکاح جب بھی ہوا ،ہو گیا لیکن اِس نکاح کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہمارے خاںصاحب اپنے گھرمیں دولہابَن کے بیٹھ رہے اوربارات ریحام خاں لے کر آئی۔
فوٹوشوٹ پربھی ریحام خاںپُراعتماد نظرآئی جبکہ ہمارے خاںصاحب دولہنوںکی طرح شرماتے رہے اِس لیے تو ہم کہتے ہیںکہ تبدیلی آنہیں رہی ، تبدیلی آگئی ہے۔تبدیلی آنے کاایک اورثبوت یہ بھی ہے کہ خاںصاحب اورریحام خاںکی یہ شادی ”ایمرجنسی”میں ہوئی۔ہوایوںکہ ریحام خاںہمارے کپتان صاحب کا انٹرویوکرنے گئی اورچھوٹتے ہی یہ سوال داغ دیا۔
بڑی دیرکی مہرباں آتے آتے ،ہم توڈیڑھ سال سے انتظارمیںتھے ”۔خاںصاحب نے لبوںپر میٹھی مسکان سجاتے ہوئے جواب دیا”پہلے آپ نے صحیح طریقے سے بلایاہی نہیںتھا”۔ پھرانٹرویو کاباقاعدہ آغازسیاست اور اختتام ”اَکھ لڑی بَدوبَدی”پر ہوا۔ دروغ بَرگردنِ راوی ،خاںصاحب نے ریحام خاںکوکہا ”دوبچوں کاپاپا پھربھی آئی لَویو”۔جواباََ ریحام خاںنے بھی جھَٹ سے کہہ دیا”تین بچوںکی ماما پھربھی آئی لَویُو”۔ ریحام خاںیہ توتسلیم کرتی ہیںکہ کپتان صاحب نے اُنہیں”پَرپوز”کیا تھا لیکن ”اندرکی بات”وہ بھی نہیںبتاتیں ۔بہرحال ”ایمرجنسی”میں ہی سہی ،شادی توہوگئی اِس لیے کب ،کیوںاورکیسے ہوئی جیسے سارے سوال بے معنی ہیں البتہ ہم خاںصاحب کوچاہنے ”والیوں”کو یہ پیغام دینے میںحق بجانب ضرورہیں کہ ”اب اُنہیںڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبالے کر”۔
سونامیوں کے ہاںآج کل سب سے مقبول نعرہ یہ ہے کہ”بھابی آنہیں رہی ،بھابی آگئی ہے”۔ کچھ سونامیے تواِس تبدیلی پرباقاعدہ مٹھائیاںبانٹتے اوربھنگڑے ڈالتے بھی نظرآئے لیکن یہ تک نہ سوچاکہ اِس شادی خانہ آبادی نے کتنے دِلوںکی بربادی کی اورکتنے دل ”توڑمروڑ” کے رکھ دیئے ۔اب توگلی گلی میں”ٹھنڈی ٹھار”آہوںکاشورہے۔ ایک دِل جَلی نے اگریہ ٹویٹ کیاکہ
ہمارے گھرکی دیواروں پہ ناصر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
تودوسری یوںگویا ہوئی کہ
اے عندلیب آ کریں مِل کے آہ و زاریاں
تُو ہائے گُل پُکار ،میں چلاؤں ہائے دِل
ہمیں تویہ بھی پتہ چلاہے کہ کچھ ”دِل جلیوں”نے گلیوںمیں باقاعدہ کورس میںیہ گاناشروع کردیا ہے کہ
جیہڑے توڑدے نیں دِل برباد ہون گے
اَج کِسے نوں روایا ،کل آپ رون گے
دِل جلیوںکی اِس ”تبدیلی”نے ہمیںپریشان کردیا ہے کیونکہ اگر انہوںنے بَنی گالہ کے باہر”دھرنا”دینے کاپروگرام بنالیا تو ”دِل جلے”بھی اُن کی مددکو پہنچ جائیںگے اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ نوازلیگ ڈی چوک اسلام آبادکا بدلہ لینے کے لیے بذریعہ راناثناء اللہ اِن دِل جلیوںکی چوری چوری مدد کرناشروع کردیں ۔اگرایسا ہوگیا تو خاںصاحب کی شادی کاسارا مزہ کِرکرا ہوکے رہ جائے گا ۔اِس لیے ہم تودِل جلیوںکویہی نصیحت کرسکتے ہیںکہ وہ دِل کے پھپھولے جتنے جی چاہے پھوڑلیںلیکن ”کَکھ”فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ قوم کوتو ”بھابھی”مِل چکی ۔
عمران خاںکی شادی کی افواہوںپرجناب نجم ولی خاںنے بڑاپُرمغز”حسابی” تجزیہ کرتے ہوئے اِس شادی کی خامیاںاجاگرکی ہیں لیکن خوبی ایک بھی نہیں۔اِس کے باوجودبھی یہ اُنکی مہربانی ہے کہ ہماری طرح وہ بھی خاںصاحب کی شادی پرذاتی طورپر خوش ہیں ۔وہ فرماتے ہیں ”یہ الگ بات ہے کہ اُنکی پارٹی میں شامل بہت سی نوجوان لڑکیاں اِس شادی پرخوش نہ ہوں ۔عین ممکن ہے اُن کے جلسوںمیں آنے والی خوبصورت لڑکیوںکی تعدادمیں نمایاںکمی ہوجائے ،میرے خیال میںیہ تحریکِ انصاف سے پہلے اُن ٹی وی چینلوںکا نقصان ہو گا جواِن جلسوںمیں ڈھونڈڈھونڈ کے چاندسے چہرے دکھاتے ہیں کہ اِس سے اُنکی ریٹنگ میںاضافہ ہوتاہے۔
تحریکِ انصاف کا یہ سیاسی نقصان ہوسکتاہے کہ وہ بہت سارے نوجوان جلسوںمیں جاناچھوڑ دیںگے جو ٹی وی چینلوںپر نظرآنے والے چہرے دیکھتے ہوئے ہرجلسے میںباڑیںاور رکاوٹیںپھلانگ کرلڑکیوں والے حصّے میںجانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ابھی تک یہ خدشہ موجودہے کہ عام انتخابات میںہونے والی مبینہ تحقیقات کے لیے حکومت تحقیقاتی کمیشن قائم نہ کرے ،ایسے میں تحریکِ انصاف کے پاس ایک مرتبہ پھرلانگ مارچ اور دھرنے کے سوا کیاراستہ ہوسکتاہے مگر عمران خاںکی شادی کے بعد تحریکِ انصاف کے جلسے بھی مسلم لیگ نون کے جلسوںجیسے ہوسکتے ہیںجہاں نظرآنے والے زنانہ چہروںکو دیکھ کر نوازلیگ کے نوجوان فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ ٹی وی پرہی اُن کا خطاب سُن لیں ،جلسے میںجاکر اپناٹیسٹ( یعنی ذائقہ) خراب کرنے کی کیاضرورت ہے۔
محترم نجم ولی کاکہا بجا البتہ ہم سمجھتے ہیںکہ یہ شادی ہمارے اینکروںاور لکھاریوںنے کروائی ہے۔آپ کویاد ہو گا کہ خاںصاحب متواتر ”کُرلاتے” رہے کہ حکومت نے نیوزچینلزکے اینکروںکو خریدلیاہے لیکن کسی اینکرکے کان پرجوں تک نہ رینگی ۔بالآخرخاںصاحب نے ”تنگ آمدبجنگ آمد”کے مصداق اینکروںکو سبق سکھانے کے لیے خودایک ایسی ”اینکرنی”سے شادی کرلی جو ایکرنی کم اور”ٹائیگرنی”زیادہ لگتی ہے ،یقین نہ آئے تومحترم نبیل گبول سے پوچھ لیں۔جہاںتک صبیح وملیح چہروںکے جلسوںاور دھرنوںمیں شرکت نہ کرنے کاسوال ہے تومشتری ہوشیارباش ،خاںصاحب نے قوم سے وعدہ کیاتھا کہ وہ ”نیاپاکستان”بنانے کے بعدشادی کریںگے۔
اب جب نیاپاکستان بن جائے گاتب وہ یقیناََ اپناوعدہ بھی پوراکریں گے اِس لیے پکچرابھی باقی ہے اوراُمیدیں قائم ودائم۔شایداسی لیے خاںصاحب نے مستقبل کی ”خاتونِ اوّل”کی اناؤنسمنٹ بھی روک رکھی ہے کیونکہ جب ہمارے کپتان صاحب وزیرِاعظم بنیںگے تب پتہ نہیںکون ”خاتونِ اوّل”قرار پائے گی ۔۔۔ اور ہاں نوازلیگ کے جلسوں میںماناکہ خاںصاحب کے جلسوںجیسی رونقیں نہیںہوتیں لیکن یہ اتنے ”ماٹھے”بھی نہیں ہوتے جتنے نجم ولی صاحب نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ڈھونڈنے والے کیمرے کی آنکھ کوکچھ نہ کچھ مِل ہی جاتاہے البتہ اگرمولانافضل الرحمٰن نے واقعی ڈی چوک میںدھرنادینے کا پروگرام بنالیا تووہاں نوجوانوںکو ”کَکھ”نہیں ملے گا کیونکہ مولاناکے جلسوںمیںصباحت وملاحت نامی کسی ”شے” کاوجودتک نہیںہوتا۔
تحریر: پروفیسررفعت مظہر