خود کو ابھی سے بدل لیجیے
Time to Change yourself.
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی کتاب کامیاب زندگی سے انتخاب مسکان رومی اسلام آباد پاکستان۔
ہمارے ایک دوست نے جو ماڈرنزم کا شکار تھے انہوں نےفیس بک پر ایک واقعہ شٸیر کیا کہ وہ پچھلے سوموار کو ایک جنازہ پڑھنے گۓ امام صاحب جنہوں نے جنازہ پڑھانا تھا اچانک سے ان کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے نہ پہنچ سکے ۔اب میت سامنے پڑی ہے اور لوگ ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں ہر شخص کے چہرے پرپریشانی کے ساتھ ساتھ سوال تھا کہ اب کیا کیا جاۓ ۔ آخر ان صاحب نے اس کا حل نکالا اور فورا سے پہلے مرحوم کے بیٹے سے کہا امام صاحب ہوں یا نہ ہوں یہ الگ بات ہے مگر جنازہ پڑھانے کا پہلا حق اولاد کاہے تو آپ اکلوتے بیٹے ہیں آپ ہی اس حق کو ادا کیجیے ۔ ادھر ان صاحب نے یہ بات کی ادھر اس بچے کی پیشانی پر شرمندگی سے پسینہ آگیا اور اس نے بنا توقف سر جھکاۓ بول دیا کہ مجھے جنازے کی دعا صحیح سے نہیں آتی۔ اس جواب کو سن کر میں نے سوچا کہ کوٸی اور حامی بھرے گا مگر یہاں سب ہی ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے ۔ کسی شخص کو دوسرے سے پوچھنے کی جرات نہ ہوسکی کہ آپ کو جنازے کی دعا صحیح آتی ہے یا نہیں ۔کیا آپ معیاری جنازہ پڑھا سکو گے کیا آپ میت کے حقوق ادا کر سکو کے ۔بہر حال کیا ہوا خدا جانے مگر شاید جنازے میں موجود کسی بھی شخص کو دعا نہیں آتی تھی یا اپنی یاد کی دعاوں پریقین اور اعتماد نہ تھا دراصل یہ اس مرحوم کا جنازہ نہیں بلکہ ہم سب کے ایمان کاجنازہ تھا ۔ دنیا داری کی دوڑ دھوپ میں آگے نکلنے اورسٹیٹس اور سٹینڈرڈ کی باتیں کرنےوالے اپنے خدا کے معاملے میں اس قدر کھوکھلے ہو چکے ہیں کہ انہیں زندہ کے تو دور مردہ کے حقوق کا بھی خیال نہیں ۔ کلاس روم میں اسلامیات کا سبق پڑھتے ہوۓ ہنس کر یا شرما کر آیات چھوڑ دینے والی قوم اور ترجمہ پر اکتفا کرنے والی مسلمان قوم کیا خاک اسلام کا علم بلند کرے گی ۔جس قوم کو باپ کے جنازے پر جاٸیداد تقسیم کرنے کی فکر کھاٸی جا رہی ہو اس نے دنیا پر کب حکومت کرنی ہے یہ ایک حسین خواب کے سوا کچھ نہیں ۔ وقت ابھی گیا نہیں والدین کو بدلنا ہو گا خود کو ۔اپنی اولاد کو ۔ جدت کے نام پر مذہب سے دوری پیدا ہو گٸی تو کل آپ ہی کی لاش لا وارث پڑی ہو گی ۔ اپنی اولاد کو دنیا کی دولت دو یا نہ دو اسلام کی دولت ضرور دو ۔ تہذیب اور حیا کی دولت ضرور دو ۔ اگر آپ کا بچہ انگلش میں بات کر سکتا ہے تو اسے نماز کی عربی پہلے آنے چاہیے اسے قرآن سے دلیل دینا پہلے آنا چاہیے ۔ خود کو بدلیے ۔انگلش خواب سے باہر نکلیے ۔زندگی کے بلیک اینڈ واٸٹ کو اچھے سے تسلیم کیجیے ۔ بار بار نہ ملنے والی یہ زندگی اکر ادھوری خواہشات کی تکمیل کرتے کرتے گزر گٸی تو آخری سانس پر حقیقت عیاں ہو گی تب کچھ نہیں کر پاو گے ۔ میرا دوست اس کے بعد اس بات کو مان گیا کہ سر تبسم جوکہتے ہیں اسلام چودہ سو سال پہلے بھی ماڈرن تھا آج بھی ماڈرن ہے جب جراثیم نامی کوٸی چیز نہ تھی اسلام نے تب بھی پانی پینے کے وہ آداب سکھاۓ جن کے بارے آج ساٸنس کہہ رہی ہے کہ ان پر عمل کرنے سے ہارٹ اٹیک نہیں آتا ۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی ایسی ورزش خوراک ۔سونے جاگنے کی روٹین متعارف کرواٸی جو ڈاکٹرز آج بتا رہے ہیں۔ اسلام چودہ سو سال پہلے انسانی زندگی کے معیار کو بلند کرنے کی بات کر رہا ہے جو علوم جدیدہ آج کر رہے ہیں ۔ ارسطو افلاطون آج اس دنیا میں ہوتے تو میرا یقین کہتا ہے وہ قرآن و حدیث کے سب سے بڑے فالور ہوتے کیونکہ وہ زندگی کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھتے تھے آج بھی مغرب میں جن لوگوں تک اسلام کی اصل تصویر پہنچ رہی ہے وہ اسلام کو فورا قبول کر رہے ہیں اور ادھر ہماری نٸی نسل ہے جو میڈیا کی یلغار سے متاثر ہو رہی ہے ۔اس قدر کے اسلامی تعلیمات کو فرسودہ یا مولوی کہہ کر ان سے دور ہونا چاہ رہی ہے جب اسلام پر تنقید نہیں بن پاتی تو عبادات اور مولوی سے شروع ہو کرمسجد اور مدرسہ کو برا کہا جانے لگتا ہے ۔ مغرب اس وقت دو انداز میں کام کر رہا ہے ایک تو اسلام کی اصل صورت مسخ کر کے اپنے مغرب والوں کو دیکھایا جایا اور دوسرا مسلمانوں کی نٸی نسل کو تباہ و برباد کیا جاۓ اور ان کو ان کے دین سے دور کیا جاۓ ۔ اس کے لیے وہ اپنی ہر ممکنہ کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔انہیں کس قدر کامیابی مل رہی ہے یہ آپ اور میں جانتے ہیں ۔ اس لیے ابھی بھی وقت ہے خود کو بدل لیجیے ۔ اسلام کے حصار میں واپس آ جاٸیے ۔ اللہ پھر سے ہمیں بو علی سینا ۔ البیرونی ۔ ابن الہیثم اور فارابی عنایت کرے گا اللہ پھر سے ہمیں محمد بن قاسم اور نور الدین زنگی دے گا۔ اسلام اعلی نظریات پر مشتمل دنیا کا وہ واحد دین ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے آپ مسلمان ہیں شکر ادا کیجیے اور اسے اچھے سے جانیے اور سیکھیے ۔جزاك اللهُ