تحریر: نسیم الحق زاہدی
کہتے ہیں کہ ایک امریکی ریاست میں ایک بوڑھے شخص کو ایک روٹی چوری کرنے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا اس نے بجائے انکار کے اعتراف کیا کہ اس نے چوری کی ہے اور جواز یہ دیا کہ وہ بھوکا تھا اور قریب تھا کہ وہ مر جاتا جج کہنے لگا کہ تم اعتراف کر رہے ہو کہ تم ایک چور ہو میں تمہیں 10ڈالر جرمانے کی سزا سناتا ہوںاور میں جانتا ہوں کہ تمہارے پاس یہ رقم نہیں ہے اسی لئے تم نے روٹی چوری کی ہے لہذا میں تمہاری طرف سے یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں مجمع پر سناٹا چھا جاتا ہے اور یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ جج اپنی جیب سے 10 ڈالر نکالتا ہے اور اس بوڑھے شخص کی طرف سے یہ رقم قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیتا ہے۔
پھر جج کھڑا ہوتا ہے اور حاضرین کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ میں تمام حاضرین کو 10/10 ڈالر جرمانے کی سزاسناتا ہوں اس لئے کہ تم ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں غریب کو پیٹ بھرنے کے لئے روٹی چوری کرنا پڑی اور مجلس میں 480 ڈالر اکٹھے ہوتے ہیں اور جج نے وہ رقم بوڑھے مجرم کو دے دی کہتے ہیں کہ یہ قصہ حقیقت پر مبنی ہے ترقی یافتہ ممالک میں غریب لوگوں کی مملکت کی طرف سے کفالت اس واقع کی مرہون منت ہے کہ سیدنا عمرفاروق نے 1400 سال پہلے ہی یہ کام کرگئے کہ پیدا ہوتے ہی بچے کا وظیفہ جاری کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بھوک مٹانے کے لئے روٹی چوری کرے تو چور کے ہاتھ کاٹنے کی بجائے بادشاہ کے ہاتھ کاٹے جائیں۔
مجھے اپنے اہل قلم دوستوں کی بھی سمجھ نہیں آتی کہ جن کی زندگیوں کا مقصد صرف قصیدہ گوہی کے سوا کچھ نہیں حقائق سے کیوں نظریں چرالیتے ہیں غریبوں، بے کسوں، بے بسوں کا ساتھ دینے کی بجائے ارباب اختیارکی چا پلوسی میں لگے رہتے ہیں سچ لکھنا بھی ایک جہاد ہے اس دور میں جہاں پر حق گوئی جرم ہوجائے یوں تو یہ جمہوری نظام ہے عوام کی حکومت ہے مگر عوام میں سے چند لوگ ہی معتبر ٹھہرے ہوئے ہیں یہاں۔ ہماری معاشرتی، معاشی تباہی کی اصل وجہ لاقانونیت، ناانصافی ہے جس کا ذکر تقریباً میرے ہر کالم میں ہوتا ہے۔
میں نے مغرب کی کامیابی کا راز جاننے کی کوشش کی تو مجھ پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ ان لوگوں نے قرآن کو اپنی بہترین زندگی گزارنے کا چارٹر بنالیا ہے وہاں کا قانون عمر لاز ہے جبکہ اس اسلامی ریاست میں برطانوی قانون میجر لاز کا نفوذہے اور وہ بھی ان لوگوں پرلاگوہوتا ہے جن کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہوتی جو افلاس کے ہاتھوں مجبور ہوکر لقمہ اجل بن رہے ہیں قانون ہمیشہ سے وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بااثر افراد کے در کا غلام رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا دلفریب نعرہ لگانے والوں سے ایک سوال ہے کہ کیا آپ ہماری طرح ایک دن ایک گھنٹہ گزارسکتے ہیں؟عوام کے نمائندے ایوانوں کی موٹی موٹی سائونڈ پروف AC عمارتوں میں بیٹھنے اور بولٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرنے والوں ایک مزدور جو کہ بمشکل 15سے20ہزار روپے ماہانہ کماتا ہے۔
کرایہ کا مکان، بجلی، پانی اور گیس میسر نہ ہونے پر بھی 8سے10 ہزار ماہانہ بل وہ کیا جانیں۔ ایک مزدور کے اوقات کی سختی کہ جن کے پروٹوکول اور حفاظت پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں جن کے ایک وقت کا کھانا ایک مزدور کے سال یا دو سال کی مزدوری سے بھی زیادہ کا ہوتا ہے یہ وہ حقائق ہیں جو سب کو نظر تو آتے ہیں مگر کوئی دیکھنا نہیں چاہتا22لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے امیرالمومنین حضرت عمرفاروق کا مشہور قول ہے کہ ”اگر میری دور حکومت میں دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن عمر کو اس کا بھی حساب دینا ہوگا۔
آج ہم تبدیلی کے لئے تیونس، مصر، فرانس، ایران کی مثالیں دیتے ہیں منڈیلا، کارل مارکس، لیلن، مائوزے، چے گویریا، ہُوچی جیسے یہودونصارا کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔1947ء میں انڈیا میں جب کانگرس کی گورنمنٹ بنی تو گاندی نے اپنے وزیروںکو سادگی کی زندگی گزارنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ میں رام چند اور کرشن جی کا حوالہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ تاریخی ہستیاں نہیں تھیں۔
میں مجبور ہوں کہ سادگی کی مثال کے لئے حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمرفاروق کے نام کرتا ہوں وہ بہت بڑی سلطنت کے حاکم تھے مگر انہوں نے فقیروں والی زندگی گزاری۔ (ہریجن27.07.1947)یہ ہے مسلمانوں کی طرز حکومت جن کی مثالیں پورا عالم کفر دیتا ہے ۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا جھوٹا نعرہ لگانے والوخدارا کپڑا مکان نہیں دے سکتے تو نہ سہی مگر بھوک کا تو کچھ سوچو۔ ورنہ یہ روٹی کے چور کہیں تمہاری جھوٹی سلطنت کو نہ نوچ ڈالیں۔
بدل کر بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں وہ
پیر ہے آدم اگرچہ جواں میں لات و منات
تحریر: نسیم الحق زاہدی