سانحہ سِول ہسپتال کوئٹہ کی انکوائری کے لئے جسٹس فائز عیسیٰ قاضی صاحب پر مشتمل یک رُکنی کمِشن نے سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرا دی ہے۔ بلوچستان کے اٹارنی جنرل نے درخواست کی تھی کہ ”چونکہ یہ حسّاس نوعیّت کی رپورٹ ہے اِس لئے اِسے خفیہ رکھا جائے “۔ لیکن فاضل عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی۔ رپورٹ منظر عام آنے کے بعد مختلف سیاسی حلقوں کی طرف سے مختلف تبصرے کئے جا رہے ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے نے دہشت گردی ختم نہ کرنے پر اور کالعدم تنظیموں سے رابطے رکھنے پر سارا ملبہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان پر ڈال دِیا ہے اور ”اونچے سُروں“ میں ہر کوئی ” گو نثار گو“ کے نعرے لگا رہا ہے۔
جناب ِ عمران خان نے کہا ہے کہ ”سانحہ کوئٹہ اور دہشت گردی کے دوسری وارداتوں کے مجرموں کو سزائیں نہ دی جانے کی ساری ذمہ داری وزیراعظم نواز شریف پر ہے“۔ لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے بعض لوگ بھی ”گو نثار گو“ کے نعرے میں پیپلز پارٹی کے ہمنوا ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ قاضی صاحب کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہوگی؟ یا سپریم کورٹ اُس پر کوئی واضح فیصلہ کرے گی؟۔ وزیراعظم نواز شریف‘ اُن کی کابینہ اور مسلم لیگ کیا فیصلہ کرے گی؟ یہ بات بھی واضح ہو جائے گی۔
”گو نواز گو“ کا نعرہ چھوڑ کر ”گو نثارگو“ کا نعرہ کیوں اپنایا گیا ہے۔ شاید اِس امید پر کہ جب چودھری نثار علی خان وزارتِ داخلہ چھوڑ دیں گے تو وزیراعظم صاحب اُن کی جُدائی برداشت نہیں کر سکیں گے اور خود بخود وزارتِ عُظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں گے۔ میرے دوست ”شاعرِ سیاست“ کا خیال ہے کہ کچھ غیر سیاسی لوگ بھی محض اپنی ”کمپنی کی مشہوری“ کے لئے ”گو نثار گو“ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ….
”ہا ، ہا ، ہا ، ہا ، ہَو ، ہَو ، ہَو
لَینا اِکّ،نہ دینے دو
مَیں وی ، ماراں ، اپنی شو
گو نثار گو ، گو نثار گو“
17 دسمبر کو چودھری نثار علی خان نے اسلام آباد میں ایک زور دار پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ”مَیں نے وزیراعظم صاحب سے ملاقات کی اور وزارتِ داخلہ سے مستعفی ہونے کی پیشکش کی تو اُنہوں نے کہا کہ ”آپ کا استعفیٰ قابلِ قبول نہیں ہے “۔ مَیں سوچ رہا ہُوں کہ جب ماضی بعید اور ماضی قریب میں سینیٹر مشاہد اللہ خان اور سینیٹر پرویز رشید نے اپنی اپنی وزارت سے استعفیٰ دِیا تھا تو جنابِ وزیراعظم نے اُن سے اِس طرح کی محبت کا اظہار کیوں نہیں کِیا تھا؟۔ شاید اِس لئے کہ ”سینیٹر حضرات کا کوئی حلقہ¿ انتخاب نہیں ہوتا اور سینٹ کی سِیٹ پارٹی لیڈر کی بخشش / عطا ہوتی ہے۔ جب کہ چودھری نثار علی خان کو قومی اسمبلی میں نہ صِرف مسلم لیگ بلکہ بعض دوسری پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
مئی 2016ءمیں جب وزیراعظم نواز شریف اپنے عارضہ¿ دِل کا علاج کرانے کے لئے لندن گئے اور پانامہ لِیکس کیس میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کی صُورت میں تو وزارتِ عُظمیٰ کے لئے اُن کے جانشِین کی افواہیں بھی پھیل رہی تھیںتو بعض نیوز چینلوں پر مسلم لیگ کے دیرینہ رہنما سیّد ظفر علی شاہ کے اُس انٹرویو پر بھی بحث ہو رہی تھی کہ ”مسلم لیگ میں چودھری نثار علی خان کو میاں نواز شریف کا جانشِین بنانے پر بچث ہو رہی ہے کیونکہ فی الحال خاتونِ اوّل بیگم کلثوم نواز اور اُن کی بیٹی مریم نواز کو وزیراعظم منتخب کرنے پر ارکانِ قومی اسمبلی کی اکثریت راضی نہیںہے “۔ یہ بات تو واضح ہے کہ ”فی الحال مسلم لیگ کے اندر سے ” گو نثار گو “ کا نعرہ بلند نہیں ہُوا“۔ یہ نعرہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول صاحب کا زورِ بیان ہے۔ موصوف ”گو نثار گو“ کا نعرہ اپنے نانا جنابِ بھٹو کے سٹائل میں لگاتے ہیں۔ جب مرحوم نے 8 سال تک صدر ایوب خان کے محرمِ امورِ داخلہ رہنے کے بعد عوامی سیاست شروع کی تھی۔
18 دسمبر کی خبر کے مطابق چیئرمین بلاول لندن پہنچے تو ائر پورٹ پر سکیورٹی حکام / عملہ نے اُن کی تلاشی لی۔ انہیں اپنی جیکٹ خود اتارنا پڑی اور جوتے بھی۔ مَیں بھی جب لندن اور نیو یارک کے ہوائی اڈے پر اُترتا ہُوں تو میرے ساتھ بھی وہاں یہی سلوک کِیا جاتا ہے لیکن مَیں تو عام آدمی ہُوں۔ بابا ٹلّ میرے خواب میں آئے اور اُنہوں نے مجھے بہکانے کی کوشش کی کہ لندن کے ہوائی اڈّے پر بلاول صاحب سے جو کچھ ہُوا اُس میں چودھری نثار علی خان کے علاقہ ”چکری“ کے کسی مسلم لیگی کارکن کا ”چکّر“ ہے لیکن مَیں نے اُن کی بات پر اعتماد نہیں کِیا، کیونکہ بابا ٹلّ کا تعلق سابق صدر مسلم لیگ جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ سے ہے۔
اپنی پریس کانفرنس میں چودھری نثار علی خان نے یہ بھی کہا کہ ” مَیں مانتا ہُوں کہ سانحہ کوئٹہ کی انکوائری رپورٹ تیار کرنے والے جج صاحب با عِزّت اِنسان ہیں “۔ لیکن مَیں بھی توبا عِزّت اِنسان ہُوں اور مَیں عِزّت کے بغیر وزارت کو لعنت سمجھتا ہُوں “۔ میرا خیال ہے کہ ”چودھری صاحب کے اِس جُملے نے جنابِ وزیراعظم کی عِزّت میںبھی اضافہ کردِیا ہے “۔ یہ ہوتا ہے کابینہ میں باقاعدہ اور “مکمل طور پر “وفاقی داخلہ کا ہونا۔ سوال یہ ہے کہ ”جب جنابِ وزیراعظم وزیرِ پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کو وزارتِ دفاع کا اضافی چارج دے کر کام چلا رہے ہیں اور جناب جناب سرتاج عزیز مشیرِ خارجہ بنا کر وزارتِ خارجہ کو بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ تو چودھری نثار علی خان کو اپنا ”مشیرِ امور خارجہ“ بنا کر کیوں نہ ٹرخا دِیا؟۔ چودھری صاحب میں کوئی نہ کوئی تو بات ضرور ہوگی؟۔
مجھے یاد آیا کہ 13 جون 2016ءکو مَیں نے (بلکہ پاکستانی قوم نے بھی) الیکٹرانک میڈیا پر سینیٹر پرویز رشید کی ایک ہنستی مُسکراتی تصویر دیکھی (پرویز رشید صاحب اُن دِنوں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات تھے) ۔ تصویر میں موصوف قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید احمد شاہ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا رہے تھے اور اُن کے آگے جُھکے ہُوئے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ چودھری نثار علی خان کبھی ایسا نہ کرتے۔ مَیں نے تو اُن کی ایسی تصویر بھی نہیں دیکھی کہ وہ اپنے لیڈر میاں نواز شریف کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا رہے ہوں اور اُن کے آگے جُھکے ہوئے ہُوں۔ کیا پیپلز پارٹی کی ”گو نثار گو“ کے نعرے لگا کر سِنگل آﺅٹ کرنے کی مہم کا مقصد یہ ہے کہ چودھری نثار علی، وزیراعظم نواز شریف اور جناب زرداری کے ”مُک مُکا“ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
چودھری نثار علی کی پریس کانفرنس کا ”نعرہ¿ انقلاب“ اُن کا یہ اعلان ہے کہ ”مجھ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور میری کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے“۔ کیا یہ وزیراعظم صاحب اور اُن کی اولاد کو کُھلا چیلنج نہیں؟۔ جنابِ بھٹو‘ صدر ایوب خان سے الگ ہُوئے تو اُنہوں نے ”اعلانِ تاشقند“ کا راز بتانے کا وعدہ کِیا تھا لیکن پورا نہیں کِیا۔ وہ ”تاشقند کے راز“ کو اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ چودھری نثار علی خان ”فدوی“ قِسم کے سیاستدان نہیں ہیں۔ اُن کے پاس نہ جانے کِس قِسم کے ”راز ہائے امور داخلہ“ ہوں گے؟۔ مجھے تو چودھری صاحب کا انداز ۔ ”اندازِ بھٹوانہ“ لگتا ہے۔