جولائی کے آخری ہفتے میں فرانسیسی حکومت نے ماروی میمن کو نیشنل آرڈر آف میرٹ ایوارڈ دیا‘ یہ ایوارڈ 1963ء میں صدر چارلس ڈیگال نے شروع کیا تھا اور یہ فرانسیسی حکومت نے 2017ء میں غربت کے خاتمے کے لیے کوششوں پر ماروی میمن کو پیش کیا‘ تقریب فرنچ ایمبیسی میں تھی‘ میں بھی اس فنکشن میں شامل تھا. ماروی میمن نے وہاں روانی کے ساتھ فرنچ بول کر خاتون سفیر کو بھی حیران کر دیا اور شرکاء کو بھی‘ پتہ چلا ماروی کا بچپن فرانس میں گزرا تھا‘ اس نے فرنچ اس دور میں سیکھی تھی‘ فنکشن کے دوران میری ملاقات حکومت کے ایک سینئر وزیر سے ہوئی‘ یہ عمر اور رتبے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے تمام رہنماؤں سے سینئر ہیں‘ ہم دیر تک سرگوشیوں میں گفتگو کرتے رہے۔
ان دنوں مارکیٹ میں دو بڑے ایشو زیر گردش تھے‘ چوہدری نثار کی بغاوت اور میاں نواز شریف کے کیس کا فیصلہ‘ چوہدری نثار دھماکا خیز پریس کانفرنس کا اعلان کر چکے تھے تاہم یہ دھماکا ابھی ہوا نہیں تھا‘ میں نے سینئر وزیر سے پوچھا ’’کیا چوہدری نثار میاں نواز شریف کو چھوڑ دیں گے‘‘ وزیر نے جواب دیا ’’چوہدری نثار نہیں چھوڑیں گے لیکن میاں نواز شریف اب ان کے ساتھ نہیں چل سکیں گے‘‘ میں نے وجہ پوچھی‘ ان کا فرمانا تھا ’’چوہدری نثار میاں صاحب کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں‘‘ میں نے مزید وجہ پوچھی‘ ان کا کہنا تھا ’’چوہدری نثار مریم نواز کو قائد تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’کیوں؟‘‘ ان کا فرمانا تھا ’’چوہدری نثار کا کہنا ہے ہم اگر سیاسی جماعت ہیں تو پھر ہمیں وراثت کا یہ کھیل ختم کرنا ہو گا۔
یوں یہ آہستہ آہستہ چکری تک محدود ہو جائیں گے یا پھر جاوید ہاشمی کی طرح پاکستان تحریک انصاف کی صدارت قبول کر لیں گے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ اکیلے جائیں گے یا پھر پارٹی کے دوسرے ہم خیال بھی ان کے ساتھ رخصت ہو جائیں گے‘‘ وہ بولے ’’یہ شروع میں اکیلے ہوں گے لیکن جوں جوں قیادت مریم نواز کے ہاتھوں میں آتی جائے گی توں توں زیادہ تر انکل چوہدری نثار کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ تمام لوگ پی ٹی آئی میں جائیں گے‘‘ وہ ہنسے‘ میری طرف غور سے دیکھا اور بولے ’’اگر عمران خان بھی فارغ ہو گئے تو یہ لوگ پی ٹی آئی کے نئے قائد کے پیچھے کھڑے ہو جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں ایک نئی پارٹی بنے گی اور وہ پارٹی ملک کی تمام اہم پارٹیوں کے اہم لوگوں کو لے اڑے گی‘‘ میرے کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں۔
میں نے بے تاب ہو کر پوچھا ’’کیا نئی پارٹی کی گنجائش موجود ہے اور کیا یہ پارٹی چار پانچ ماہ میں الیکشن کے قابل ہو جائے گی‘‘ وہ بڑے یقین سے بولے ’’میرا خیال ہے ۔۔۔‘‘ ان کی بات ابھی ادھوری تھی کہ فرنچ سفیر نے تقریب باقاعدہ شروع کرا دی اور ہم تمام شرکاء کھڑے ہونے پر مجبور ہو گئے اور یوں بات مکمل نہ ہو سکی۔ وہ بات ادھوری رہی لیکن حقائق مکمل ہیں اور میاں نواز شریف کو بہرحال کبھی نہ کبھی ان مکمل حقائق پر ضرور غور کرنا ہوگا‘ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور میاں نواز شریف دونوں کو کبھی نہ کبھی کروٹ بدلتی تاریخ پر ایمان لانا ہوگا‘ یہ درست ہے تیسری دنیا کے تمام ملکوں میں مارشل لاء لگتے تھے اور فوج اقتدار میں آتی تھی لیکن یہ سلسلہ 2000ء کے بعد ختم ہو چکا ہے‘ دنیا میں اب کسی اہم ملک میں فوجی حکومت ہے اور نہ ہی آنے والے دنوںمیں اس کا امکان موجود ہے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا‘ یہ ایسی غلطی نہ کرے کیونکہ یہ غلطی فوج اور ملک دونوں کے لیے آخری ثابت ہو گی‘ یہ ملک بکھر جائے گا‘ یہ بھی درست ہے دنیا میں 2000ء تک خاندانی سیاست آب و تاب کے ساتھ موجود تھی لیکن نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یہ روایت بھی پھٹی پرانی رضائی بن گئی‘ یہ سلسلہ بند ہو گیا‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ دنیا کا نقشہ میز پر رکھیں اور وہ ملک تلاش کریں جن میں آج خاندانی سیاست موجود ہے‘ آپ کو پاکستان کے علاوہ کوئی ملک نہیں ملے گا اور پاکستان بھی اب اس قدیم روایت کا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔
ہمارے ہمسائے بھارت میں کانگریس خاندانی سیاسی جماعت تھی‘نہرو فیملی کی چار نسلیں کانگریس کی سربراہ رہیں‘ باپ کے بعد بیٹی‘ بیٹی کے بعد دو بیٹے‘ بیٹوں کے بعد اٹالین بہو اور اب پوتا راہول گاندھی کانگریس کا نائب صدر ہے‘ یہ پارٹی ترکے میں منتقل ہوتے ہوتے خرچ ہو گئی‘ آپ کسی دن کانگریس کی تازہ ترین صورتحال کا مطالعہ کر لیجیے آپ کو یہ پارٹی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ماضی کا قصہ لگے گی ‘آپ پاکستان پیپلز پارٹی کا حشر بھی دیکھ لیجیے‘ یہ پارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے بنائی‘ محترمہ بے نظیر بھٹو بڑے بھٹو صاحب کے انتقال کے بعد پارٹی کی سربراہ بنیں‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک مشکوک وراثتی خط کے ذریعے اپنی پارٹی اپنے شوہر کو سونپ دی اور شوہر کے دور میں پارٹی کا جلوس نکل گیا۔
آصف علی زرداری اب پانچ سال سے اپنے صاحبزادے کو قیادت کی کرسی میں فٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ میاں نواز شریف بھی اس نیک کام میں حتی الامکان ان کی مدد کر رہے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری دونوں بزرگوں کی کوشش کے باوجود اس کرسی میں فٹ نہیں آ رہے اور اس سعی لاحاصل میں سندھ بھی پارٹی کے ہاتھوں سے پھسلتا چلا جا رہا ہے‘ آصف علی زرداری نے بلاول کو لیڈر بنانے کی یہ کوشش ترک نہ کی‘ اگر انھوں نے ریٹائرمنٹ نہ لی اور پارٹی کو میرٹ کے سہارے پر نہ چھوڑا تو پیپلز پارٹی پاکستان کی کانگریس بن جائے گی۔
آپ اسی طرح اے این پی اور جمعیت علماء اسلام کا حشر دیکھ لیجیے‘ یہ دونوں پارٹیاں بھی سکڑتی جا رہی ہیں اور آخر میں میاں نواز شریف کی پارٹی بچی ہے‘ ہمیں ماننا ہو گا ملک میں میاں نواز شریف کے علاوہ کوئی تجربہ کار لیڈر موجود نہیں‘ پاکستان 2018-19ء میں اپنے قیام کے بعد خوفناک ترین دور سے گزرے گا‘ ہمیں اس دور میں 1971ء کا سانحہ بھی چھوٹا محسوس ہوگا‘ ملک کو اس دور میں میاں نواز شریف کی اشد ضرورت ہو گی لیکن میاں صاحب کے لیے اس دور سے پہلے سروائیو کرنا ضروری ہے اور مجھے ان کی سروائیول خطرے میں محسوس ہو رہی ہے‘ یہ غلطی پر غلطی کرتے چلے جا رہے ہیں۔
میاں نواز شریف کو یہ مان لینا چاہیے لوگ اب ان کی بات پر یقین نہیں کر رہے‘ یہ اپنا عوامی مقدمہ ہار چکے ہیں‘ یہ اب ملک سے باہر کسی جگہ باہر نہیں نکل سکتے اور یہ صورت حال اگر پاکستان میں بھی شروع ہو گئی تو حالات مزید بگڑ جائیں گے‘ ملک میں سیاسی خانہ جنگی شروع ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف لکی تھے لیکن یہ لک اب ان کا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔
یہ گزشتہ دو سال سے جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اس کے نتائج ان کے حق میں نہیں نکلتے‘ ان کی سیدھی بھی الٹی پڑ رہی ہے چنانچہ میرامشورہ ہے میاں نواز شریف کو اب حالات سے سمجھوتہ کر لینا چاہیے‘ یہ پارٹی کو میرٹ کے آسرے پر چھوڑ دیں‘ سیاست کریں لیکن اقتدار کا خیال ترک کر دیں‘ یہ ہر قسم کے عوامی عہدے سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں‘ پارٹی کا ایگزیکٹو بورڈ بنائیں‘ اپنی عمر کے تمام لوگوں کو عملی سیاست سے ریٹائر کریں‘ پارٹی کے نئے ضابطے‘ قوانین اور روایات بنائیں‘ نئے لوگوںکو شامل کریں اور ملک کو آگے بڑھنے دیں۔
میاں صاحب یہ بھی مان لیں یہ اور ان کا خاندان اقتدار کے لیے ناگزیر نہیں ہے‘ یہ اس مغالطے سے بھی نکل جائیں کہ یہ جس کو لیڈر بنانا چاہیں گے وہ لیڈر بن جائے گا‘ یہ مان لیں اگر ایم کیو ایم الطاف حسین کے بغیر چل سکتی ہے تو پاکستان مسلم لیگ ن بھی ان کے بغیر چل پڑے گی اور یہ بھی مان لیں شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال اور خواجہ آصف ان کے بغیر زیادہ بہتر حکومت چلا رہے ہیں‘ کابینہ کے اجلاس باقاعدہ ہو چکے ہیں‘ شاہد خاقان عباسی فائلیں فوراً نکال دیتے ہیں‘ یہ کوئی آرڈر بھی نہیں روکتے‘ یہ اسمبلی کے اجلاس میں بھی جاتے ہیں اور یہ صبح سے رات گئے تک کام بھی کرتے ہیں‘ خواجہ آصف بھی 18 گھنٹے کام کر رہے ہیں۔
وزارت خارجہ کے چار سال کے کام اب ہو رہے ہیں اور احسن اقبال بھی ہر وقت دستیاب رہتے ہیں‘ یہ وہ کام بھی کر چکے ہیں جو چوہدری نثار شاید اگلے دس برسوں میں بھی نہ کر پاتے اور فوج اور حکومت کو اگر ایک پیج پر ہونا چاہیے تو وہ وقت آ چکا ہے ملک میں اب سول اور ملٹری کے درمیان حقیقتاً کوئی فاصلہ موجود نہیں‘یہ دونوں ایک پیج پر ہیں‘ میاں صاحب اگر چاہیں تو یہ سلسلہ آگے بڑھ سکتا ہے‘ یہ سائیڈ پر ہو جائیں‘ یہ سیاست کریں اور پارٹی ملک چلائے‘ یہ خاندان کو بھی سیاست سے نکال لیں۔
ملک‘ خاندان اور پارٹی تینوں بچ جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں بیروں کی یہ ٹوکری کیچڑ میں گر جائے گی‘ سارے بیر بکھر جائیں گے اور یقین کیجیے یہ ملک کسی نئے سیاسی حادثے کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ میاں صاحب کو اب اس پر رحم کرنا چاہیے‘ انھیں چوہدری نثار کی باتیں مان لینی چاہئیں‘ چوہدری صاحب درست کہہ رہے ہیں‘ پاکستان مسلم لیگ ن اگر واقعی پارٹی ہے تو پھر اسے پارٹی نظر آنا چاہیے‘ یہ جاگیر نہیں ہونی چاہیے‘ دنیا میں جاگیری سیاست ختم ہو چکی ہے‘ ہمیں بھی اب یہ حقیقت مان لینی چاہیے‘ میاں نواز شریف خود مان گئے تو ٹھیک ورنہ حالات انھیں ماننے پر مجبور کر دیں گے اور وہ حالات اب زیادہ دور نہیں ہیں۔