تحریر : انجینئر افتخار چودھری
ویسے تو ہزار بار لکھا جا چکا ہے ۔کئیوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے بہت سوں نے اس مرد درویش پر لکھا ہے ۔لیکن آج رات کے اس پہر میں راولپنڈی ایئر پورٹ سوسائٹی میں واقعہ ایک گھر کے کمرے میں بیٹھا ایک اور نہج سے سوچ رہا ہوں۔کہ ٣ فروری کی ایک انتہائی سرد رات کو اپنوں سے دور ایک شخص موت سے کس طرح لڑ رہا ہوگا۔بتایا گیا ہے کہ انہیں ٹھنڈ لگ گئی تھی وہ نمونیا کا شکار ہو کر اس دنیا سے چلے گئے۔میرے پاس اس وقت رضائی اور کمبل ہے نوکر نے گرم دودھ بھی دیا ہے۔خدا قسم ایک دم خیال آیا کہ دیار غیر میں چودھری صاحب کو کن مشکلات کا سامنا ہو گا۔کچھ لوگوں نے ان پر تہمت بھی لگائی کہ ان کے پاس بڑی رقم تھی ۔مزاریوں کو ٹیوشن پڑھانے کی کتنی رقم ملی ہو گی۔جس شخص کے پاس چند گز سفید کپڑے کے لئے پیسے نہ تھے اس نے کیا بد عنوانی کی ہوگی۔ اور وہ جب وصیت نامہ لکھ رہے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ مجھے مسلمانوں کی طرز پر دفن کرنا تو کیا ارمان ہوں گے ان کے دل میں۔یہ تو ضرور سوچا ہو گا کہ میں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے کیا کیا سوچا تھا۔انہیں کس طرح ایک نقطے پر اکٹھاکرنے کی سعی کی کہ مسلمانو! سوچ لینا ہندو کبھی تمہارا نہیں بن سکتا انہوں نے یہ بھی تو سوچا ہو گا کہ لوگ ان کا آئیڈیا لے اڑے وہ جو اس وقت ہندومسلم بھائی بھائی کے نعرے لگاتے تھے اور میں بٹ کے رہے گا ہندوستان کی صدا بلند کر رہا تھا۔
مجھے یہ صدا بلند کرنا مہنگا پڑ گئی سردیوں کی اس رات میں ادھر پنڈی کے ایک کونے میں بیٹھا میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ ان کے پاس سب کچھ ہو سکتا تھا وہ اگر وکالت ہی کرتے تو آسائشوں سے مالامال ہو سکتے تھے۔ٹھٹھرتی راتوں میں نمونیے میں مبتلا چودھری رحمت علی کے ساتھ اس وقت کی حکومت نے سخت زیادتی کی ۔اس نے ان کے پیچھے سرکاری جاسوس لگا دیے جنہوں نے ان کا جینا دوبھر کر دیا۔پاکستان کے ان برا چاہنے والوں نے چودھری رحمت علی کی قائد اعظم سے ملاقات بھی نہ ہونے دی انہوں نے قائد اعظم کو بھی ماری پور روڈ پر ایک پھٹیچر سی گاڑی میں انتظار کرا کے مارا اور انہیں بھی پاکستان سے بھگا کر موت دی۔فاطمہ جناح نے تو یہ بھی لکھا کہ زیارت میں کچھ صاحبان اقتتدارجب قائد اعظم کے پاس پہنچے تو میرے بھائی نے کہا فاطی یہ میری صحت دریافت کرنے نہیں آئے بلکہ یہ دیکھنے آئے ہیں کہ میں کتنا زندہ رہ سکتا ہوں؟وہ لوگ بانی ء پاکستان کے ساتھ یہ بہیمانہ سلوک کر گئے تو چودھری صاحب ان کے لئے کیا تھے۔
چودھری صاحب نے بہت کچھ سوچا ہو گا۔اپنی بھرپور زندگی میں انہوں نے بحری جہازوں پر بے شمار سفر کئے ۔انگریزوں کو پہلی مرتبہ پاکستان سے آگاہ کیا۔یہ انہی کا کام تھا کہ جب مسلم لیگ میز پر انگلستان کی قیادت کے ساتھ بیٹھی تو وہ چودھری رحمت علی کے پاکستان سے آگاہ تھے۔آج مجھے تاریخ کے پنونںے کوئی نئی بات نہیں کھنگالنی اور نہ ہی کوئی نیا مطالبہ۔مگر میں ایک بات وزیر اعظم نواز شریف صاحب سے کرنا چاہوں گا وہ بات جس کی گواہی خواجہ سعد رفیق خواجہ آصف اور اسحق ڈار صاحب دیں گے۔
جب وہ جلاوطنی میں جدہ میں تھے تو ایک روز ان پر قیامت گزر گئی ان کے والد صاحب اس دنیا سے چلے گئے۔ہم نے ان کا جنازہ پڑھا یہ فجر کی نماز کے بعد پڑھایا گیا رمضان کے دن تھے۔جب حرم کے باہر میں نے اعلان کیا کہ میاں صاحب آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو جنازے مین شرکت کے لئے آئے ہیں۔تھوڑی دیر بعد سہیل ضیاء بٹ میرے پاس آئے اور کہا کہ میاں صاحب آپ کو ملنا چاہتے ہیں سرور پیلیس آ جائیے۔تقریبا نو یا دس بجے ہوں گے میں ان کے پاس پہنچا۔اوپر ذکر کیا ہے میں نے چند احباب کا وہ سب میرے منتظر تھے،میں میاں صاحب کے گلے لگا۔ان کی آنکھوں میں آنسو تھے انہوں نے کہا چودھری صاحب دیکھیں ہمارے ساتھ کتنی بڑی زیادتی ہوئی ہے کہ وطن سے دور ہمارے بزرگ فوت ہو گئے اور ہم پاکستان بھی نہیں جا سکتے۔میاں شریف کے جنازے کے ساتھ بریگیڈئر جاوید اقبال آئے۔ان کے آخری لمھات میں جدہ سے کوئی اور نہ آسکا میاں صاحب بس اس مجبوری کو ذہن میں رکھیں۔ذرا سوچیں کہ میاں شریف کی قبر پر مٹی ڈالنے کی اجازت نہیں ملی آپ کے دل میںساری زندگی کا ارمان ہے۔
محترم وزیر اعظم صاحب! ایک شخص جس نے تخلیق لفظ پاکستان ہی نہیں ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو قومی نظریہ دیا اس نے وہاں کیمرج میں ہوسٹل کے ذمہ داران سے کہا کہ مجھے مسلمانوں کی طرح دفن کرنا۔کفن کے پیسے کسی سرکاری اہلکار نے بعد میں ادا کئے۔آج پاکستانی قوم کے ایک فرد ہونے کے ناطے آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ پردیسیوں کے دکھ کو محسوس کریں اور ان کا جسد خاکی پاکستان لائیں۔ حضور آپ نے ایک اور بات بھی کہی تھی کہ میرے لائق جب بھی کوئی خدمت ہو یاد کرلیں۔میاں صاحب میرے اوپر جو مظالم ڈھائے گئے وہ آپ کا ساتھی ہونے کے ناطے تھے۔گھر بار لٹا فقیر ہوئے جدہ کی جیلیں دیکھیں۔لیکن سب کچھ پاکستان کے لئے تھا ۔آپ سے پاکستان کے لئے مانگ رہا ہوں۔ میری سیاسی راہیں جدا ہیں لیکن ایک رشتہ تو آپ سے ہے نہ وہ رشتہ ہے پاکستانی ہونے کا۔
دوستو!ہم گجروں نے جتنی زیادتی چودھری رحمت علی کے ساتھ کی وہ اپنی جگہ ہے۔ہم نے اسے گجر کاز بنا دیا کاش کہ ہم اپنے تئیں غیر گجروں کو بھی اس کار خیر میں شامل کرتے تو آج یہ مسئلہ حل ہو جاتا۔میں روزنامہ اذکار کے ایڈیٹر جناب تزئین اختر اور ان کے دیگر رفقاء کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جو ان خطوط پر کام کر رہے ہیں۔ بس سردیوں کی اس رات میں ایک پردیسی قائد کی سرد راتیں یاد آ گئیں جو پاکستان کے لئے لڑتا پردیس میں داعی ء اجل کو لبیک کہہ گیا۔البتہ اس بے حس قوم کی جانب آج بھی دیکھتا ہو گا کہ کب دفن کے لئے دو گز زمیں ملے گی اور مین پردیسی کب گھر لوٹوں گا۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری