تحریر: واٹسن سلیم گل
جمعہ کا دن تھا 25 اپریل 1986 پری پیاٹ شہر کے لوگ اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں مشغول تھے۔ وہ یہ نہی جانتے تھے کہ ان کے سر پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ یوکرائن میں پری پیاٹ شہر جو کہ بیلاروس سے 20 کلومیٹر شمال میں واقع ہے ۔ اس شہر کے ایک طرف درائے پری پیاٹ بہہ رہا ہے۔ اس شہر کے تینتالیس ہزار افراد یہ نی جانتے تھے کہ چند گھنٹوں بعد یہ لوگ تاریخ کے سب سے خوفناک حادثے سے گُزرنے والے تھے۔ وہ نہی جانتے تھے کہ یہ شہر آج کے بعد ویران ہو جائے گا۔
جہاں عمارتیں تو ہوں گی مگر مکین نہی ہونگے ۔ اسکول ہونگے مگر طالب علم نہی ۔ اس شہر سے محض تین کلومیٹر پر واقع چرنوبل ایٹمی جوہری پلانٹ نمبر 4 میں 25 اپریل سے ہی کچھ گڑبڑ تھی ۔ اس پلانٹ میں اُ س وقت 176 لوگ اپنی زمہ داریاں انجام دینے میں مصروف تھے۔ صبح کی شفٹ کے بعد رات کی شفٹ تبدیل ہوئ ۔ اور تاریخ بھی 25 اپریل سے 26 اپریل میں تبدیل ہوئ ۔ 1200 سو ٹن کے اس ری ایکٹر میں انرجی کو بچانے کے حوالے سے کچھ تجربات کئے جا رہے تھے۔ پھر اچانک اس پلانٹ کو ٹھنڈ ا کرنے کے نظام میں کچھ گڑبڑ ہوئ اور یہ ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔ پری پیاٹ شہر کے باسی جنہوں نے رات ٹھیک ایک بج کر 23 منٹ پر ایک دھماکا سُنا تھا نہی جانتے تھے کہ کیا ہوا ہے۔ ایک بات غور طلب ہے کہ یورپ اور امریکا کے ایٹمی پلانٹ کے دفاعی اور سیفٹی کے نظام سوویت یونین کے ایٹمی پلانٹس کے مقابلے میں زیادہ موثر اور محفوظ تھے۔
رات کے ایک بج کر 23 منٹ پر ایک خوفناک دھماکے کے ساتھ نیوکلر پاور پلانٹ تباہ ہو گیا اور 12 سو ٹن کا یہ ری ایکٹر جس میں سے یورونیئم اور گریفائٹ کے جلنے سے تابکاری آلودگی کی ایک بڑی مقدار فضا میں تیزی سے پھیلنے لگی ، اور ان کے میلاپ سے ایک ریڈیو ایکٹیو ڈسٹ (تابکاری زرات) ہزاروں میٹر بلند فضا میں شامل ہونے لگے جو کہ انسانی زندگی کے لئے انتہائ معضر تھے۔ دو سائنسدان موقع پر جاں بحق ہوئے اور 29 کارکن اس حادثے میں جُھلس کر چند ہفتوں میں جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ 26 اپریل صبح 1 بج کر 23 منٹ پر ہونے والے اس حادثے کو کئ گھنٹے گُزر گئے اس کو راز رکھنے کی کوشش ایسی ہی تھی جیسے کسی ہاتھی کو چوہے کی بل میں پھنسانے کی کوشش کی جائے ۔ وقت تیزی کے ساتھ گُزر رہا تھا۔
اور اس جوہری پلانٹ کی تابکاری اور زہریلی گیس ہوا کے ساتھ مل کر نہ صرف پورے یوکرائن کی فضا کو گھیر چُکی تھی بلکہ یہ بیلاروس ، ماسکو ، یورپ اور بالٹک ریاستوں کی طرف رواں دواں تھی ۔ صبح پانچ بجے ماسکو میں گوربا چوف کو سوتے ہوئے اٹھایا گیا اور اسے اس حادثے کی خبر دی ۔ 26 اپریل کا دن تھا اور پری پیاٹ کے باسی اس بات سے بے خبر تھے کہ ان سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے والا حادثہ ان کی زندگیوں کا تبدیل کر کے رکھ دے گا ۔ دوپہر تقریبا تین بجے کرنل ویلادمیر کریبنیوک اپنے سپاہیوں کے ساتھ جائے حادثہ پر پہنچے ۔ ان کی ٹیم نے گیس ماسک پہنے ہوئے تھے ۔ اس کے باوجود بھی وہ تابکاری آلودگی کا زائقہ اپنی زبان پر محسوس کر رہے تھے۔ پری پیاٹ کے شہریوں نے جب دیکھا کہ بہت سے سپاہی گیس ماسک اور خاص قسم کے لباس میں ان کے علاقے میں موجود ہیں تو ان شک ہوا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اس فوجی ٹیم نے فضا میں تابکاری کی مقدار کا پتا لگانے والے آلات سے جب نتیجہ دیکھا تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ کیونکہ ان آلات نے بتایا کہ اس شہر کی فضا خطرے کے نشان سے 15 گناہ زیادہ خطرناک ہو چکی ہے ۔
لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور دروازے کھڑکیاں مکمل طور پر بند رکھیں۔ سوویت حکومت اور ان کے نیوکلر سایئنسدان سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔ پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے پری پیاٹ شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے اور اس علاقے کو جلد سے جلد خالی کروایا جائے۔ 27 اپریل کو جب کے اس حادثے کو 30 گھنٹوں سے زائد گُزر چکے تھے۔ شہریوں کو بسوں میں بھر بھر کے اس شہر سے نکالا گیا۔ کسی کے گمان میں بھی نہی تھا کہ وہ جس گھر کو چھوڑ کر جا رہے ہیں دوبارہ کبھی بھی اس گھر میں واپس نہی آ سکیں گے۔ اور پھر چند گھنٹوں میں پورا شہر خالی ہوگیا۔ تابکاری سے بھری زہریلی گیسس کے بادلوں نے فضا میں ہواؤں کے رُخ پر اڑنا شروع کیا اور پھر 28 اپریل کی صبح اسٹاک ہوم سویڈن میں بارش کی صورت تابکاری آلودگی نے ان کی فضا آلودہ کر دی ۔اور تابکاری جانچنے والے میٹرز نے شور مچا کر سوویت یونین کے اس راز کو بے نقاب کر دیا ۔ ان کے آلات نے بتا دیا کہ کہ فضا میں خطرناک تابکاری موجود ہے۔
سویڈن کے عالی حکام نے ہنگامی طور پر اس وقت کےڈائریکٹر آف انٹرنیشنل ایٹمک انرجی مسٹر ہنس بلیکس کو آگاہ کیا۔ اس کے بعد پورا یورپ ، امریکا حرکت میں آگیا۔ سب نے اپنے اپنے سیٹلائٹ کے رُخ سوویت یونین کی جانب پھیر دیے ۔ اور جائے حادثہ کا پتا چلالیا۔ 28 اپریل کو سوویت یونین نے باضابطہ طور پر دنیا کو اس خوفناک حادثے سے آگاہ کیا۔ 12 سو ٹن کے اس پلانٹ کی بنیادوں میں سفید تابکاری مواد تین ہزار ڈگری کی شدت سے جل کر میگما کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ خوف یہ تھا کہ یہ زمین کی تہہ میں مل کر نزدیک دریائے پری پیاٹ کو آ لودہ کر سکتا تھا۔ جس سے لاکھوں انسانوں اور آبی حیات کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ 18 ارب روبیل کی خطیر رقم لگا کر اس ری ایکڑ کے گرد ایک کنکریٹ کا حصار بنایا گیا۔ مگر آج بھی یہ علاقہ تابکاری اثرات کے زیر اثر ہے۔ آج اس واقعے کو تیس سال گزر چکے ہیں۔ اس حادثے میں مرنے وا لوں کے تعدادمیں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ چھپایا گیا ہے۔ مگر ہزاروں لوگ کینسر اور دیگر وجوہات کی بنا پر اپنی آدھی عمر میں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ مرنے والوں میں بہت بڑی تعداد چالیس کا ہندسہ عبور نہ کر سکی۔
تحریر: واٹسن سلیم گل