تحریر : طارق حسین بٹ
کسی کو اس بارئے میں کبھی بھی شک نہیں ہونا ہونا چائیے کہ عمران خان اس وقت عوامی امنگوں کے ترجمان ہیں۔حکومت ان کے خلاف جتنی سرعت سے حرکت میں آئیگی اس کی مقبولیت اتنی ہی سرعت سے بلند ہوتی جائیگی ۔عوام کے اذاہان میں اس یقین نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مک مکائو کے تحت اپنی اپنی باریاں لیتی ہیں اور کسی ایسے نظام کو پروان نہیں چڑھنے دیتیں جہاں پر عدل و انصا ف اور جوابدہی حقیقت کا جامہ پہن سکے اور عوام اپنے قائدین کا حتساب کر سکیں۔خیبر پختونخواہ میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخا بات نے اس حقیقت کو ثابت کر دیاہے کہ عوام عمران خان کو اپنا اعتماد دینا چاہتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ عمران خان اپنے وعدوں کو کیسے ایفا کرتے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ اور سٹیٹسکو ہر ایسی آرزو کے درمیان ایک دیوار بن کر کھڑی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کا کام ہمیشہ ہی تبدیلی کو روکنا ہوتا ہے لیکن اس کے ایسا کرنے سے تبدیلی تھوڑا رکتی ہے۔اسے تو اپنے بہائو سے بہتے رہنا ہوتا ہے ۔خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کی ٣٤ سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوئے تو تحریکِ انصاف نے حسبِ معمول اپنی برتری قائم رکھی
حالانکہ یہ انتخابات جو ڈیشل کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد منعقد ہوئے تھے جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریکِ انصاف اپنا سحر کھو چکی ہے۔در اصل عوام جب بھی کسی قائد کو اپنی محبت سے نوازتے ہیں تو وہ محبت کئی عشرے چلتی ہے۔ذولفقار علی بھٹو اس کی سب سے بین مثال ہیں جہاں پی پی پی ٤٥ سالوں تک ایک بڑی جماعت کی حیثیت سے سیاسی منظر نامے پر چھائی رہی۔آصف علی زرداری کی قیادت میں پی پی پی کے سکڑنے کا عمل شروع ہو ا تو تحریکِ انصاف نے اس کی جگہ لے لی جسے عدالتی فیصلوں یا پارلیمنٹ کی قرار دادوں سے لگام نہیں ڈ الی جا سکتی۔ کیا کبھی ایسے ہوا ہے کہ پارلیمنٹ کی قراد داد سے کسی ممبرِاسمبلی کو اس کی نشست سے محروم کر دیا جائے۔جب پارلیمنٹ کسی ممبر کو منتخب نہیں کرتی تو اس کی ممبر شپ ختم کرنے کا اسے اختیار بھی حاصل نہیں ہوتا
بلکہ یہ ہر ممبر کا استحقاق ہوتا ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ سے مستعفی ہونا چاہتا ہے یا کہ اس کا حصہ بنا رہنا چاہتا ہے۔مستعفی ہونے کی صورت میں سپیکر کو اس بات کا یقین کرنا ہوتا ہے کہ مستعفی ہونے والا ممبر بلا کسی دبائو کے مستعفی ہو رہا ہے کیونکہ دبائو کے تحت دیا گیا استعفی قابلِ قبول نہیں ہوتا جاوید ہاشمی کے معاملے میں سپیکر اسمبلی ایاز صادق نے یہی طریقہ کار اپنایا تھا جس کی وجہ سے جاوید ہاشمی کو اسمبلی فلور پراپنے مستعفی ہونے کا اعلان کرنا پڑا تھا تا کہ اسپیکر کے پاس استعفی منظور کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ باقی نہ بچے۔،۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان پاکستانی سیاست کے مروجہ اصولوں سے ناواقف ہیں اور اپنی سادہ لوحی سے شاطر اور گھاگ سیاستدانوں سے ٹیکنیکلی مار کھاتے رہتے ہیں لیکن ان کا خلوص اور سچا پن انھیں عوامی اذہان میں مات نہیں ہونے دیتا ۔یہ سچ ہے کہ دھرنے کے زمانے میں وہ پارلیمنٹ سے چالیس دنوں سے زیادہ غیر حا ضر رہے تھے جس کی وجہ سے آئینی طور پر ان کی اسمبلی کی نشستیں ختم ہو گئی تھیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت ان کی نشستیں خالی کروانے میں اتنی ہی سنجیدہ تھی تو پھر سپیکر قومی اسمبلی نے ان کے خلاف کیوں حکم جاری نہیں کیا تھا اور الیکشن کمیشن کو کیوں مطلع نہیں کیا تھا کہ تحریک انصاف کے ممبرانِ اسمبلی اپنی نشستیں کھو چکے ہیں لہذا ان انشستوں پر دوبا رہ انتخابات کا ڈول ڈالا جائے۔
اگر جاوید ہاشمی کی نشست کے معاملے میں ایسا ہو سکتاتھا تو پھر تحریکِ انصاف کے باقی ارکانِ اسمبلی کے خلاف ایسا کیوں نہیں ہو سکتا تھا؟در اصل اس زمانے میں حکومت سخت دبائو میں تھی اور تحریکِ انصاف کے استعفوں کی منظوری انھیں نئے بحران کے حوالے کر سکتی تھی لہذا اس وقت یہ مفروضہ گھڑا گیا کہ جب تک سب ارکانِ اسمبلی سپیکر کے چیمبر میں حاضر ہو کر اپنے استعفوں کی تصدیق نہیں کریں گئے ان کے استعفے قبول نہیں کئے جائیں گئے۔تحریکِ ا نصاف نے سپیکر کی اس تو جیہہ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا لہذا انھوں نے سپیکر کے چیمبر میں جا کر اپنے استعفوں کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا تھا جس پر سپیکر کو یہ رولنگ دینی پڑی کے تحریکِ انصاف کے ممبرانِ اسمبلی تا حال اسمبلی کے ممبران ہیں اور پارلیمنٹ کی کاروائی میں حصہ لے سکتے ہیں۔
حکومت کی یقین دہانی پر تحریکِ انصاف کے ممبرانِ اسمبلی پارلیمنٹ ہائوس واپس لوٹے تو مسلم لیگ (ن) کے ممبرانِ اسمبلی نے نازیبا زبان استعمال کی اور انھیں جی بھر کر ذلیل و خوار کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے تو بد تمیزی کی انتہا کر دی اور تحریکِ نصاف کو ایسے آڑے ہاتھ لیا کہ ان کیلئے منہ چھپانا مشکل ہو گیا حالانکہ تحریکِ انصاف کے ممبران وزیرِ اعظم کے ترلے منتوں کے بعد پارلیمنٹ لوٹے تھے۔تحریکِ ا نصاف کے معاملے میں ایم کیو ایم اور جمعیت العلمائے اسلام پیش پیش ہیں ۔پی پی پی مشکل کی اس گھڑی میں تحریکِ ا نصاف کے ساتھ کھڑی ہے اور اسے پارلیمنٹ میں دیکھنا چاہتی ہے۔ایم کیو ایم کی پرخاش کوبآسانی سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ عمران خان نے ایم کیو ایم کو کراچی میں چیلنج کر رکھا ہے اور عمران خان ایم کیو ایم کی دھشت گردانہ کاروائیوں پر اس کے سب سے بڑا ناقد بن کر سامنے آئے ہیں۔
ایم کیو ایم کے جس خوف نے پورے کراچی کویرغمال بنا رکھا تھا عمران خان اس خوف سے عوام کو نجات دلوانے کیلئے پہلی آواز بنا جو ایم کیو ایم کو کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ۔وہ ہر ایسی آواز کو جو اس کی قائم کردہ ریاست میں نقب لگانے کی کوشش کریگی اسے ہمیشہ کیلئے خاموش کرنا چاہیگی۔اپنی حاکمیت کا سکہ قائم رکھنے کیلئے ایم کیو ایم نے تحریکِ انصاف کے کئی کارکنوں کو شہید کیا لیکن عمران خان نے پھر بھی قدم واپس کرنے سے انکار کر دیا۔یہ سچ ہے کہ الطاف حسین مہاجروں کے غیر متنازعہ لیڈر ہیں لیکن اس سے بھی کسی کو کوئی انکار نہیں کہ رینجرز کی کاروائیوں کے بعد ایم کیو ایم اپنی دیرینہ حیثیت کھوتی جا رہی ہے۔را کے ساتھ ایم کیو ایم کے تعلقات اور مالی امداد لینے کے الزامات نے اس کی حب الوطنی پر گہرے سوالات اٹھا رکھے ہیں جس سے مہاجرکمیو نیٹی میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ مولا نا فضل الرحمان کے ساتھ تحریکِ انصاف کی جو مخاصمت ہے وہ بھی سب پر عیاں ہے۔
مولانا فضل الرحمان خیبر پختونخواہ پر حکومت کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں جسے عمران خان نے بھک سے اڑا دیا ہے ۔فضل الرحمان کی مخالفت اپنی کھوئی ہوئی حکومت کی واپسی ہے جسے تحریکِ انصاف اچک کر لے گئی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جوڈیشل کمیشن کے بقول انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی تو پھر کراچی اور دوسرے بہت سے شہروں میں پولنگ سٹیشنوں پر سارا دن پولنگ بند رہی تو اسے کیا کہا جائیگا؟مختلف امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ جس طرح غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے رہے اسے کس کھاتے میں ڈالا جائیگا؟ٹھپے لگانے کے جو منا ظر ٹیلیو یژن نے دکھائے ان کی حیثیت کیا ہے؟لاکھون بیلٹ پیپرز جو اردو بازار سے چھپوائے گئے ان کی توجیہ کیا ہے؟عمران خان کی غلطی یہ ہے کہ اس نے نواز شریف حکومت کی موجودگی میں جوڈیشل کمیشن پر اتفاق کر کے ایک غلط چال چلی تھی جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑیگا۔سیاست میں دوسروں پر دبائو رکھنا ہی سب سے بہترین حکمتِ عملی ہوتی ہے اور عمران خان دھاندلی دھاندلی کا شور مچا کر اس دبائو کو قائم رکھ سکتے تھے تا آنکہ ٢٠١٨ کے انتخابات کا وقت آ پہنچتا۔
عمران خان کو یہ علم تو ہو گیا تھا کہ نواز حکومت جلد جانے والی نہیں ہے لہذا اسے دبائو میں رکھنے کا ایک ہی آسان نسخہ تھا کہ اس پر دھاندلی کا گند پھینک کر اس کا چہرہ بدنما کئے جانے کا عمل جاری رکھا جاتا ۔عمران خان نے اپنے چند دوستوں کے مشورے پر جوڈیشل کمیشن کے قیام میں منظم دھاندلی والی شق مان کر اپنے خلاف دھاندلی کر لی۔یہاں پر تو ویسے کوئی دھاندلی تسلیم نہیں کرتا چہ جائیکہ کہ کوئی منظم دھاندلی کا اعتراف کر لے۔بہت سے دانشوروں کی متفقہ رائے تھی کہ عمران خان نے شطرنج کی بساط پر غلط چال چلی ہے جو اسے نقصان پہنچایگی اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد بالکل ویساہی ہوا۔ اس وقت تحریکِ ا نصاف سخت دبائو میں ہے لیکن وہ جلدی اس سے نکل جائیگی لیکن عمران خان کیلئے ایک سبق چھوڑ جائیگی کہ ساتھیوں کے ہر مشورے کو بے چون و چرا تسلیم نہیں کیا جاتا۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ