جرمنی( انجم بلوچستانی) برلن بیورو اور مرکزی آفس برلن MCBیورپ کے مطابق نئے عیسوی سال ٢٠١٦ء کے آغاز پر دنیا بھر کے سربراہوں،عالمی رہنمائوں اور اہم شخصیات کے تہنیتی اور خیر سگالی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔دنیا کے تقریباً١٨٠ ممالک میںمصروف عمل تحریک منہاج القرآن کے مرکزی، ملکی و غیر ملکی رہنمائوں کے بیانات سامنے آرہے ہیں۔اس موقعہ پر حسب معمول سینئر رہنما و چیف کوآرڈینیٹر پاکستان عوامی تحریکPATیورپ،بانی وورلڈ چیرمین ایشین پریس کلبزایسوسی ایشنAPCAانٹرنیشنل(رجسٹرڈ) شکاگو/ برلن؛بانی وعالمی سربراہ بین الاقوامی اردو مرکزBAUMبرلن /شکاگو؛مرکزی چیرمین کشمیر فورم انٹرنیشنلKAFI؛تحریک منہاج القرآن پاکستان کے میڈیا کوآرڈینیٹر یورپ؛چیرمین ایشین جرمن رفاہی سوسائٹیAGRS محمد شکیل چغتائی نے اپنا انٹرنیشنل کی وساطت سے کہا کہ ”دنیا سال نو ٢٠١٦ء کا استقبال کر رہی ہے۔
سال گزشتہ عالمی دنیا،اسلامی دنیا اور پاکستان کے لئے کوئی اچھا سال ثابت نہیں ہوا۔خصوصاً پاکستان کو بد ترین دہشت گردی،بد امنی،مہنگائی،بیروز گاری،بجلی و پانی کے بحران،معاشی مشکلات اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔اس لحاظ سے لوگوں نے نئے سال سے اچھی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔اس سال کی بہتری اور اچھائی،عالمی سطح پر امن کی بحالی،جنگ کے ماحول کے خاتمے،ایٹمی جنگ سے مکمل پرہیز،ملکوں کے درمیان مسائل اور اختلافات گفت و شنید کے ذریعہ حل کرنے کے مواقع اور بڑی طاقتوں کے منصفانہ طرز عمل پر منحصر ہے۔
لہٰذا میںمندرجہ بالا تنظیمات ،تحریکوں اور جماعتوں کی جانب سے پوری انسانیت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی سابقہ غلطیوں،کوتاہیوں اورانصاف کے دوہرے معیار سے سبق حاصل کرتے ہوئے دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرے۔عالمی طاقتوں پر دنیا کے امن و سلامتی کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔انہیں اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا۔مشرق وسطےٰ میں جنگ بندی،عرب و ایران میں ہم آہنگی،فلسطین اور کشمیر کے مسائل کا پر امن حل،بے گھر افراد کی مدد اورپریشان حال مہاجرین کی پناہ دنیا کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔جس سے یہ زخم مندمل ہوسکتے ہیں۔اسی میں عالمی طاقتوں کی بھی بھلائی ہے۔
پاکستان میں ضرب عزب کو کامیابی سے ہم کنار کرنا،دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں و سر پرستوں کی مکمل بیخ کنی،ملک عزیز میں عدل و قانون کے نفاذ،ناانصافی، رشوت ستانی،اقربا پروری،مہنگائی اور ٹیکس چوری کا خاتمہ حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کے اہداف ہونے چاہئیں۔پاکستان ہر قسم کے لسانی،گروہی،شہری،مسلکی اور قومی تعصبات کو ترک کئے بغیر یہ اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔جمہوریت و آمریت کے نام پرقابض حکومتیں قوم کی نمائندگی کے تمام وعدوں اور عوام کی بھلائی کے لئے بر سر اقتدار آنے کے نعروں کے باوجود اچھے نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔جس سے ثابت ہوا ہے کہ ہمیں پاکستان کے فرسودہ،ظالمانہ،غیر عادلانہ،غیر منصفانہ،خائن، راشی،متعصب، نام نہاد جمہوری طرز حکومت کو بنیادی طور پر بدلنا ہو گا۔پاکستان کے قیام کے فوراًً بعدقائد اعظم محمد علی جناح کی بیماری اوروفات، قائد ملت لیاقت علی خان کی سازش کے تحت شہادت اورپاکستان کے بانیوں میں شامل دیگر اکابرین کے مختلف سازشوں کا شکار ہونے کے بعد اس ملک میںشخصی اقتدار کا رواج رہا،چاہے وہ فوجی شکل میں ہو یاعوامی لیڈر کی شکل میں۔جسے کچھ عرصہ بعد ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
سونے پر سہاگہ یہ ہوا کے ملک کے دو منتخب، ہر دلعزیز،عوامی وزراء اعظم کوشہید کر دیا گیا۔پہلے کو عدالتی قتل کا نام دیا گیا اور ذولفقار علی بھٹوکو دنیائے اسلام میں پہلی ایٹمی طاقت کا سر براہ بننے کی سزا دی گئی۔یہی نہیں بلکہ بھٹو خاندان کے دو چشم و چراغ گل کرنے کے بعداسکی ہونہار بیٹی،دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیربھٹو کو شہید کر کے دہشت گردوں کے خلاف اٹھنے والی ایک توانا آواز کو خاموش کر دیا گیا۔ متحدہ قومی موومنٹ،نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کو دہشت گردوں کی دشمنی اور انتخابات میںدھمکیاں مول لینی پڑیں۔اسی طرح پاکستان عوامی تحریک کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کو دہشت گردوں کے خلاف جاری کردہ پانچ سو صفحات پر مشتمل فتوے ، موادو دلائل کی وجہ سے،جسمیں انہیں خوارج ثابت کیا گیا ،شہداء کانفرنس کے رہنمائوں اور دہشت گردوں کی مخالف تمام جماعتوں کو پریشانی لاحق ہوئی۔
ان حالات میں ٢٠١٦ء امیدوں اور آرزوئوں کا سال ہے۔جنہیں رائیگاں نہیں جا نا چاہئے۔پاکستان کو اپنے پڑوسیوں افغانستان، ایران و انڈیا سے تعلقات کا نئے سرے سے جائزہ لینا ہوگا،تنازعات کا حل تلاش کرتے ہوئے گیس وتیل پائپ لائن اور اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کو پایہء تکمیل تک پہنچانا ہو گااسمیں ہم سبکی بقا، ترقی اور خوشحالی کا پیغام پوشیدہ ہے۔ترکی،سعودی عرب،گلف ریاستوں،چین سے مستقل دوستی،امریکہ و یورپ سے بہتر تعلقات ، روس سے قربت اوراسکی آزاد ریاستوں سے دوستی ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہونا چاہئے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نئے ٹیکسوں کی بھرمار کے بجائے ٹیکس کلچر کی بحالی کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہیں ، قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ ،تمام وزراء ومشیران کو اپنی اصل آمدنی پر ایمانداری سے ٹیکس ادا کرکے عوام کیلئے مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
پشاور میں بچوںکے اسکول کا واقعہ،بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کا قتل عام،کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر حملہ،سرحدی چوکیوں پر عسکری جوانو ں و افسران کی شہادت،یہ سب نہ بھولنے والی داستانیں ہیں۔ہمیں نئے سال میں ان سب کا حساب لینا ہے۔ملک کے موجودہ نظام انتخاب کے ذریعہ کسی بڑی اور اہم تبدیلی کا خواب دیکھنا حماقت ہے۔ملک میں انقلابی تبدیلیوں کے لئے موجودہ نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ملک کے موجودہ حکمرانوں کو نوشتہ ء دیوار پڑھ لینا چاہئے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے،اسکے چھلکنے سے قبل حالات کی بہتری کے سبب تلاش کر لیجئے۔ ورنہ یہ جان لیجئے کہ وہ وقت جلد آنے الا ہے، جب آپ کی نہ کوئی داستاں ہو گی، جہاں کی داستانوں میں۔
اس سال کئی اہم سیاسی، سماجی،ادبی اور مذہبی شخصیات بھی ہم سے بچھڑ گئیں،جن میںامیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد؛پی پی پی پی کے صدر مخدوم امین فہیم وسابق وزیر قانون عبدالحفیظ پیر زادہ؛نیپ کے رہنما بشیر بلور کے بھائی؛پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ؛ایم کیو ایم اور شہداء کانفرنس کے کئی رہنما؛ علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال؛سابقہ ISIچیف جنرل حمید گل؛ اردو کے نامور شاعر جمیل الدین عالی؛پی ٹی وی کے مایہ ناز فنکار کمال احمد رضوی ؛پی ٹی وی کے بانی منیجنگ ڈائریکٹر اسلم اظہر،مشہور کامیڈین فرید خان ،وغیرہ شامل تھے۔پردیس کا المیہ بھی یہی ہے کہ آپ لوگوں کی وفات کی خبر تو سن لیتے ہیں ،مگر اکثرسفر کرنا اور جا کر چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔اللہ پاک اپنے حبیب ۖ کے صدقہ ان شخصیات،پاکستان میںدہشت گردی اور ماورائے عدالت شہید ہونے والے تمام شہدائ، میرے ا ور میرے احباب کے جملہ فوت شدہ لواحقین کی مغفرت کرے، انکے درجات بلند کرے اور ہم سب کو صبر جمیل عطافرمائے۔ آمین۔”