اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان میں شناختی کارڈ میں ولدیت کی تبدیلی کیلئے درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ والدکانام حذف کرنا بچی کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا،نادراقوانین کوبدلنے تک ایساممکن نہیں۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی
میں بنچ نے شناختی کارڈمیں ولدیت کی تبدیلی کیلئے درخواست کی سماعت کی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالتی معاون بتائیں کیا بچی کے والدکانام ریکارڈ سے تبدیل کیاجاسکتاہے؟ چیف جسٹس نے عدالت معاون سے سوال کیا کہ کیا والد کی جگہ والدہ کا نام لکھا جاسکتا ہے؟،بچی کی والدہ کہتی ہے ولدیت میں اس کانام لکھیں۔ عدالت معاون نے بتایا کہ بچی کے والد کے نام کی ضرورت ریاست کو ہے،دوسراسوال یہ ہے کہ کیا ولدیت کو ریکارڈمیں رکھاجاسکتا ہے؟ بین الاقوامی طورپرولدیت لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی؟عدالتی معاون نے کہا کہ والد کے نام کی کئی جگہ پرضرورت پڑتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ والدکانام حذف کرنا بچی کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا، نادرا قوانین کوبدلنے تک ایساممکن نہیں۔ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سربراہ بشیر میمن نے تطہیر بنت پاکستان کیس میں لڑکی کے والد کے اثاثوں کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پیر کے روز معاملہ کی سماعت کی۔ ڈی جی ایف آئی نے عدالت کو بتایا کہ تطہیر فاطمہ کے والد کے اثاثوں کی چھان بین کی گئی جس سے معلوم ہوا ہے کہ والد کی ماہانہ آمدن 20 سے 25 ہزار روپے ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ تطہیر فاطمہ کے والد نے عیسائی سے مسلمان ہونے والی خاتون سے دوسری شادی کر رکھی ہے۔ والد کی ملکیت میں ایک دکان بھی شامل ہے۔ بینچ کے سربراہ نے ڈی جی ایف آئی سے مکالمے میں کہا کہ ڈی جی صاحب عدالت آپ پر ذیادہ بوجھ نہیں ڈال رہی۔ بشیر میمن نے جواب دیا کہ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچھ شرعی قوانین بھی ہیں، مخدوم علی خان کو اس کیس میں معاون مقرر کردیا گیا ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت دس روز کے لیے ملتوی کردی۔