اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بہت سارے قواعد خاموش ہیں ، کچھ روایتیں بن گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں چھ سے
سات جنرل توسیع لیتے رہے ، کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کر لیتے ہیں۔ نارمل ریٹائرمنٹ سے متعلق آرمی کے قواعد پڑھیں۔ آرمی ایکٹ کے رول 262 سی کو پڑھیں۔ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال دی گئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 262 میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کا ذکر نہیں ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 243/3 کے تحت کمیشن ملتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اچھا نکتہ اُٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ دوبارہ تعیناتی کا ہے۔ 1948ء سے لے کر ابھی تک تقرریاں ایسے ہی ہوئی ہیں۔ جسٹس کیانی کی تقرری بھی ایسے ہی ہوئی تھی جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس کیانی کی نہیں جنرل کیانی کی تقرری۔ اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ یاد رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کی سماعت پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ تین رکنی بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم شامل ہیں۔دوران سماعت بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنا وکالت نامہ عدالت میں جمع کروایا اور وہ عدالت میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ میں کیس کی مزید سماعت کو دوپہر ایک بجے تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔