چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ملکی سیاست، معیشت اور کرکٹ سے متعلق خبروں پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اسلام آباد ماڈل کورٹس کے جوڈیشل افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مقدمات جلد نہ نمٹنے کی وجہ سے کئی لوگ جیلوں میں قید ہیں، جیلوں میں قید افراد کے بچے بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فوری انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہے اور ماڈل کورٹس فوری انصاف فراہم کر رہی ہیں، جرائم کے خاتمے کے لیے نظام کو بہتر کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھتے ہیں تو اپوزیشن لیڈر اور قائد ایوان کو بولنے نہیں دیا جاتا، اپوزیشن اور قائد ایوان کو بولنے نہ دینے کا دیکھ کر ڈپریشن ہوتی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس سے بچنے کے لیے چینل تبدیل کرتے ہیں، کرکٹ ورلڈ کپ لگاتے ہیں تو پھر مایوس کن خبر ملتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ معیشت کی خبریں سن کر مایوسی ہوتی ہے، معیشت کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ آئی سی یو میں ہے، آئی یو سی سے باہر آ گئی ہے، اس کا کون ذمہ دار کون ہے اس سے قطع نظر اچھی خبریں نہیں آ رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے کا ایک شعبہ ہے جہاں سے اچھی خبر آ رہی ہے اور وہ عدلیہ کی انصاف کی فراہمی کا شعبہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت سستے اور فوری انصاف کی فراہمی عدلیہ کی ترجیح ہے، ماڈل کورٹس نے 45 دن میں 5800 مقدمات کے فیصلے کیے۔
ان کا کہنا تھا جھوٹے گواہ اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر جیسے مسائل پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں، دیوانی مقدمے کا سامنے کرنے والا شخص اپنے گھر میں رہتا ہے جب کہ فوجداری مقدمے کا سامنے کرنے والا جیل میں رہتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہماری سپریم کورٹ دنیا کی پہلی سپریم کورٹ ہے جہاں آن لائن مقدمات کی سماعت شروع ہوئی۔