اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات پر بے تحاشا ٹیکسز کے اطلاق کے معاملے پر وزارت پٹرولیم و دیگر متعلقہ اداروں سے تحریری وضاحت طلب کر لی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا فرانزک آڈٹ کروائیں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پٹرولیم مصنوعات پر ہوشرباء ٹیکسزکے اطلاق سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پٹرولیم مصنوعات پر 25 فیصد ٹیکس لگتا ہے، جب بھی عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہوتی ہے سیل ٹیکس لگا دیا جاتا ہے، جب عوام کو ریلیف دینے کی باری آتی تو ٹیکس لگ جاتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قیمتیں 100 ڈالر سے 50 ڈالر پر آجائے حکومت قیمتیں کم نہیں کرتی، پٹرولیم مصنوعات پرکس قسم کے ٹیکسز کا اطلاق ہوتا ہے، عالمی مارکیٹ اور پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی کیا قیمتیں ہیں ؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہمارے یہاں ریجن سے کم ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہوں تو عوام کو ریلیف نہیں ملتا، بھارت سے قیمتوں کا موازنہ نہ کریں، چارٹ بنا کر دیں کہ پٹرولیم مصنوعات پر کتنے قسم کے ٹیکسز کا اطلاق ہوتا ہے، آئل کمپنی اور ڈیلر کا مارجن کتنا ہے ؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پٹرولیم پر کسٹم ڈیوٹی، لیوی اور سیل ٹیکس کا اطلاق ہوتا ہے، پٹرول پر 11.5فیصد ٹیکس لگتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شاید پٹرولیم پرڈھاکہ ریلیف فنڈز لگا ہے، متعلقہ وزارت اور ادارے، پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کے حوالے سے تحریری جواب داخل کریں، مقدمے کی سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی۔