اسلام آباد; چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ پانی اور آبادی کے معاملے کو سنجیدہ نہ لیا تو مشکل حالات ہوں گے۔ آبادی بڑھنے سے وسائل اور رہنے کی جگہ کم ہو رہی ہے۔تفصیلات کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق از خود نوٹس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ملک کے لیے یہ کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد آبادی کنٹرول کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آبادی بڑھنے سے وسائل اور رہنے کی جگہ کم ہو رہی ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ دراصل بم دھماکہ ہے۔ آبادی کنٹرول کرنے کے لیے قانون سازی بھی درکار ہوگی۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قومی پالیسی پر ایک صوبے کو اعتراض ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت صوبوں کے درمیان تنازعہ حل کروا سکتی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آبادی میں کنٹرول کے لیے لوگوں کو سمجھانا ضروری ہے۔ لوگوں کو راضی کرنے کے ساتھ کوئی فائدہ بھی دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ تاثر ہے پیدائش کو کنٹرول کرنا اسلام کے خلاف ہے۔ خواتین کو تحفظ اور اعلیٰ مقام دینے کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا حکومت سے کہیں کہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں لے جائے۔ اللہ نہ کرے یہ ہو جائے کہ کھانے کے لیے روٹی نہ ہو۔ پانی اور آبادی کے معاملے کو سنجیدہ نہ لیا تو مشکل حالات ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ آج آبادی کنٹرول کرنے کی پالیسی بنے تو 5 سال بعد نتائج آئیں گے۔
دوسری جانب ایک خبر کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ آبادی پرقابونہ پایاگیاتوکوئی بھی ترقیاتی ہدف حاصل نہیں ہوسکے گا،جنگی بنیادوں پراقدامات کی ضرورت ہے۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے آبادی میں اضافے پرازخودنوٹس کی سماعت کی، شہناز وزیر علی نے عدالت کو بتایا کہ آبادی پرقابوپانے کیلئے مذہب رکاوٹ نہیں بلکہ ناکافی سہولتیں ہیں چیف جسٹس نے شہناز وزیر علی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بڑی حوصلہ افزابات ہے،آپ نے سندھ میں کچے علاقے کاکبھی دورہ کیا؟۔ہماری بچیوں کو”ٹول”کی طرح استعمال کیاجاتاہے،خواتین خودسے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتیں ڈی جی پاپولیشن نے کہا کہ آبادی میں کنٹرول کے معاملے پرمذہبی سکالرز سے رابطہ کیاہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایران ،بنگلادیش نے آبادی پرکنٹرول کیلئے اقدامات کئے،ایران کے اقدامات سے شرح پیدائش میں نصف فیصدکمی آئی۔جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آبادی کنٹرول پروگرام میں ریاست معاشرے کوشامل نہیں کرتی،چین اورایران نے آبادی کومتحرک کر کے نتائج حاصل کئے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پرسیاسی کمٹمنٹ نظرنہیں آتی،10 سال میں آبادی پرکنٹرول کیلئے اقدامات نہیں کیے گئے،ماضی کے تجربات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھناہوگا،ماضی کے تجربات کی روشنی میں اب کیااقدامات کرنےکی ضرورت ہے؟۔
عطیہ عنایت اللہ نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ قوم اور انتظامیہ کوجگارہی ہے،38سے40 مائیں روزانہ بیماری کی وجہ سے انتقال کرجاتی ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جنگی بنیادوں پراقدامات کی ضرورت ہے۔ آبادی پرکنٹرول کیلئے سندھ حکومت کے اقدامات کی کیسے تصدیق کریں گے؟۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آبادی پرکنٹرول کیلئے محکمے کا 4 سالہ بجٹ 2 ارب روپے ہے،اس حساب سے سالانہ بجٹ 50 کروڑروپے ہے۔دوسری طرف ایک خبر کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے وفاقی دارالحکومت میں پانی کی قلت کا معاملہ نئی حکومت پر چھوڑ دیا۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں اسلام آباد میں پانی کی قلت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے نوٹس کے بعد پانی کی صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے بہتر ہوگا کہ معاملہ نئی حکومت پرچھوڑ دیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ حکومت ہر 2 ماہ بعد واٹر سپلائی سے متعلق رپورٹ دے اور ٹینکر مافیا کے حوالے سے مناسب اقدامات کرے ۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں پانی کی قلت کے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردی۔