نلکے کاپانی اُبال کر پئیں ، اللہ کے فضل سے کچھ نہیں ہو گا۔چیف جستس نے کہا کہ منرل واٹر کمپنیاں زمین سے پانی نکال کر بوتلیں بھرتی ہیں۔ منرل واٹر کمپنیاں چھوٹی بوتل 32 روپے میں بیچ رہی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کمپنیوں کا سالانہ منافع ایک ارب سے زائد ہے۔ چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ لاہور میں بورنگ کریں تو پانی کتنے فٹ پر آتا ہے۔جس پر اعتزاز احسن نے جواب دیا کہ جی 400 فٹ پر پانی آتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے نیچے پتھر اور چٹانیں ہیں جن سے پانی نہیں نکلتا۔آپ چاہتے ہیں کہ لاہور اور شیخوپورہ کا پانی سُکھا دیں۔ منرل واٹر کمپنیاں مفت میں پانی بھرتی ہیں۔ لوگ بالٹیاں لے کر بیٹھے رہتےہیں لیکن نلکوں میں پانی نہیں آتا۔کل بھی 5 جعلی کمپنیاں پکڑی گئی ہیں۔ کئی بڑی کمپنیوں کا پانی بھی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنیاں فی لٹر کتنا پیسہ دینے کو تیار ہیں؟دنیا میں پانی کی قیمت کیاہے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔تمام کمپنیوں کو نوٹس جاری کر دیا تھا،آج جو حکم جاری ہوا وہ سب پر لاگو ہو گا۔ اب مفت میں پانی استعمال کرنے نہیں دیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اب منرل واٹر کمپنیوں کی ٹربائنز بند کر دیتے ہیں۔ پہلے نلکوں سے پانی بہہ رہا ہوتا تھا ، منرل واٹر کمپنیوں کی موٹروں کی وجہ سے نلکے خُشک ہو گئے ہیں۔ منرل واٹر کمپنیاں اربوں گیلن استعمال کر کے اربوں روپے کما گئے اور بدلے میں عوام کو مہنگے پانی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔کمپنیوں کی اکثریت غیر معیاری پانی بیچ رہی ہے، اربوں گیلن کا پانی لیا اور لاکھوں روپے بھی نہیں لیے گئے۔ پانی بیچنے والی کوئی کمپنی پیسے نہیں دے رہی۔۔چیف جسٹس نے کہا کہ خدارا بوتلوں کا پانی نہ پئیں اور نلکے کا پانی اُبال کر پئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منرل واٹر کمپنیاں پانی بطور خام مال استعمال کر رہی ہیں۔ کمپنیاں جائز منافع ضرور کمائیں لیکن پانی کی قیمت بھی ادا کریں۔