اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے قائداعظم سولر تھرمل اور بھکی پاور پلانٹ سے بجلی کی عدم پیداوار پر ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بھکی پاور پلانٹ اور قائداعظم سولر تھرمل پلانٹ سے بھلی کی پیداوار نہ ہونے سے متعلق وفاق اور پنجاب حکومت سے جواب طلب کرلیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بھکی پاورپلانٹ سے ایک میگاواٹ بجلی پیدا نہیں ہوئی، پنجاب نے پاور کمپنیاں بنائیں اس پر جواب دیں۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ بعض اور بھی پاور پراجیکٹس کا بھی کیس آ رہا ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے 19 اپریل 2017 شیخوپورہ میں ایل این جی سے چلنے والے قائداعظم تھرمل پاور پلانٹ بھکھی کا افتتاح کیا تھا جس سے 717 میگا واٹ بجلی سسٹم میں آنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
اس سے قبل آج ہی سپریم کورٹ نے پی آئی اے نجکاری کیس میں سابق مشیر ہوابازی شجاعت عظیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی آئی اے کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر تشریف لائے ہیں؟جس پر ان کے وکیل نے بتایا کہ وہ ملک سے باہر ہیں ، جواب سن کر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے صرف دو سربراہان کو باہر جانے کی اجازت دی ہے۔چیف جسٹس نے سردار مہتاب عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا بدعنوانی یا نقصان آپ کے دور میں نہیں ہوا، آپ بیٹھ کر دیکھیں کہ پی آئی اے میں ہوا کیا ہے، ہمیں فرانزک آڈٹ رپورٹ مل چکی ہے بریفنگ ہونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کو ٹیکس کا پیسہ جاتا ہے لیکن اسے کھالیا جاتا ہے، پی آئی اے کو نقصان پہنچانے کے ذمہ داروں کو نہیں چھوڑیں گے۔شجاعت عظیم کے عدالت میں کھڑے ہونے کے انداز پر چیف جسٹس نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ شجاعت عظیم آپ عدالت میں جیب سے ہاتھ باہر نکال کر کھڑے ہوں،آپ ملک سے باہر نہیں جا سکتے، اس موقع پر شجاعت عظیم نے کہا کہ وہ دو سال مشیر ہوا بازی رہے ان کا تعلق پی آئی اے سے نہیں ہوابازی سے تھا۔بعد ازاں چیف جسٹس نے شجاعت عظیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی، اس موقع پرچیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ پی آئی اے کے سابق ایم ڈیز اپنے جوابات داخل کریں اور جوابات سوچ سمجھ کر داخل کیے جائیں۔اس سے قبل پی آئی اے نجکاری کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ پی آئی اے کو خسارہ آخری دوحکومتوں کے دور میں ہوا ،پی آئی اے کا 2008 سے خسارہ بڑھ کر 360 ارب ہو گیا،اس سے پہلے مجموعی خسارہ 73 ارب روپے تھا،جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کےلئے پیساکہاں سے آتا ہے،پی آئی اے کو پیسا ٹیکس کاجاتا ہے،ٹیکس کے پیسے کو کھاتے جا رہے ہیں۔
دسمبر دو ہزار پندرہ میں چیف جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شجاعت عظیم تقررکیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھاکہ اٹارنی جنرل وزیراعظم سے پوچھ کربتائیں کہ شجاعت عظیم کوکام سے روکنا ہے یا نہیں۔ جس پراٹارنی جنرل نے بتایاکہ جواب جمع کرانے کے لئے ہمیں پندرہ دن کی مہلت دی جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اتنی مہلت چاہئے تو، پھرشجاعت عظیم کوکام کی اجازت نہیں ہوگی۔
چودہ دسمبر دو ہزار پندرہ میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے شہری ہوابازی شجاعت عظیم نے استعفی دے دیا تھا، ترجمان سول ایوی ایشن ڈویژن کے مطابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سول ایوی ایشن شجاعت عظیم سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے بعد مستعفی ہوئے،سپریم کورٹ نےانہیں ہوابازی سے متعلق فیصلے لینے سے روک دیا تھا۔