تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے تھانہ کلچر کو بدلنے کیلئے بہت اہم اقدامات کیے تاکہ عوام کو بر وقت اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے چندماہ قبل پولیس لائنز لاہور میں شہداء گیلری کی تقریب میں ہزاروں پولیس ملازمین کے ساتھ اپنے خطاب میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پنجاب پولیس کی تنخواہ اور مراعات میں فوری اضافہ کرتے ہوئے تنخواہ کے برابر رسک الاؤنس دینے کا اعلان کیا ہے۔
تنخواہ میں اضافے کے اعلان کے علاوہ پولیس مقابلوں اور دہشت گردی کے واقعات میں شہیدہونے والے اہلکاروں کے لواحقین کو دی جانے والی رقم کو بیس لاکھ سے بڑھا کر تیس لاکھ اور زخمی ہونے والے کو تین لاکھ روپے اور پولیس کے ان شہداء کے بچوں کو پہلی جماعت سے بی اے تک تعلیم مفت دی جائے گی۔ پولیس کو ایسا ادارہ بنانا چاہتے ہیں جو مثالی ہو۔
اسی دوران انہوں نے کہا کہ اب پولیس کے سپاہی کی تنخواہ ایک ڈاکٹر کے برابر ہو گئی ہے اور اس سے ہر سال خزانے پر آٹھ ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔پولیس والوں کو چاہیے کہ پاکستانی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی اس رقم کے صلے میں عوام کو بے مثال خدمت مہیا کریں۔
معاشرے کی ترقی کے لیے سب سے اہم چیز امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنا ہے اور اس وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے بھی ضروری ہے کہ امن و امان قائم ہو اور اسے بہتر کرنے کے لیے پولیس کے محکمے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جہاں تنخواہیں بڑھانی ضروری ہیں وہاں پولیس کا بھی فرض ہے کہ فرض شناسی اور نظم وضبط کا مظاہرہ کریں۔ پولیس اہلکاروں کو ہر طرح کی خارجی ترغیب کو رد کرنا ہو گا۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پاکستان میں قانون صرف ان کے لیے ہے جو کمزور اور لاچار ہیں جبکہ خود کو اشرافیہ کہنے والوں پر قانون کا اطلاق نہیں کیا جاتا۔معاشرے کی اس بڑی خلیج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے تھانہ کلچر تبدیلی کے اقدامات پر آج بھی ہزاروں سوالیہ نشان ہیں۔کہ پنجاب پولیس تنخواہ، مراعات میں اضافے کہ باوجودجرائم میں کمی کیوں نہیں آرہی۔عوام آج بھی دربدرانصاف کے حصول کیلئے رل رہے ہیں۔قانونی ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ پولیس کی تنخواہ، مراعات میں اضافہ سے تھانہ کلچر میں تبدیلی نہیں آنے والی اور نہ ہی عوام کو سستااور بروقت انصاف مل سکتا ہے۔جبکہ تک قانون کی خلاف ورزی کرنے والے پولیس ملازمین کیخلاف کارروائی نہیں ہوتی اورچھوٹی چھوٹی باتوں کے باعث بڑے بڑ ے جرائم ہورہے ہیں۔عوام اس کی ذمہ دار پولیس کوکہتی ہے۔کیونکہ کرپٹ پولیس ملازم گلیوں ، بازاروں،ڈیروں،دیہاتوں جرائم پیشہ افرادکی سرپرستی کرتے ہیں جس سے کئی قومی سانحہ ہوچکے ہیں۔قوم اپنے ایماندارپولیس آفیسروں سمیت دیگر قومی ہیروسے محروم ہوچکی ہے۔کچھ کرپٹ پولیس ملازمین نے وردی کو غنڈاگردی کا سرٹیفکیٹ بنالیا ہے۔ہوٹلوں ودیگر جگہوں پر مفت کھانے کھانا،مفت پھل کھانا،دوران سفرکرایہ نادیناوغیرہ وغیرہ حرکیتں شامل ہیں۔
عدالتوں میں جو مقدمات پیش کئے جاتے ہیں ان میں قانون کی اس حد تک مٹی پلید کی جاتی ہے کہ عدالتیں پولیس افسروں اوراہلکاروں کے خلاف ریمارکس دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں، تھانوں میں بے گناہوں کو حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے اب تو پولیس افسروں نے اپنے نجی تھانے بھی بنا رکھے ہیں جہاں گناہگاروں یا بے گناہوں کو محبوس رکھ کر ان سے مک مکا کیا جاتا ہے یہ سلسلہ اس حد تک دراز ہو چکا ہے کہ قتل اور ڈکیتی جیسی ہولناک وارداتوں کے ملزموں کو بھی قانون کا کوئی خوف نہیں رہ گیا، تھانوں میں ایف آئی آر درج نہیں ہوتی اور بہت سی ردوکداور کئی دنوں کی کوششوں، سفارشوں اور دوسرے ذرائع کے استعمال کے بعد جو ایف آئی آر درج ہوتی ہے اس میں بھی واقعات کا حلیہ بگاڑ کر اس انداز میں لکھا جاتا ہے کہ بے گناہ مقدمات میں پھنسا دئے جاتے ہیں، قتل کے مقدمات میں ایسے ایسے لوگوں کے نام ایف آئی آر میں درج کر لئے جاتے ہیں جن کا واردات سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
مقتول کے ورثا جان بوجھ کر غلط بیانی کرتے اور پولیس ان کی جھوٹی کہانی کو اپنی منفعت کے لئے ایف آئی آر میں درج کر لیتی ہے۔ پھر جب اس کے حق میں گواہیاں نہیں ملتیں تو ایسے ملزم بری ہو جاتے ہیں لیکن اس دوران بے گناہوں کی زندگی کے کئی کئی قیمتی سال ضائع ہو جاتے ہیں ، تھانوں میں ڈکیتی کا پرچہ درج کرانا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیاہے۔ چونکہ اعلیٰ پولیس افسر ڈکیتی پر ماتحت عملے سے باز پرس کرتے ہیں اس لئے ماتختوں نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ پرچہ ہی درج نہ کیا جائے اوراگرباز پرس ہو تو موقف اختیار کیا جائے کہ ہمارے پاس تو کوئی مقدمہ ہی درج نہیں اور اگر دنوں اور ہفتوں کی کوششوں کے بعد ایسا ممکن ہو جائے تو بھی ملزم پکڑنے کی نوبت نہیں آتی۔پولیس مدعیوں پر خود دباؤ ڈالتی ہے کہ وہ ملزموں سے صلح کرلیں ورنہ ان کا ’’نقصان‘‘ ہوگا۔ یوں مدعی انصاف کے حصول سے تائب ہوکر چپ سادھ لیتے ہیں۔
اسی حوالے سے 12 اگست 2015 کو پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے اٹلی سے سنٹرل کور کمیٹی کے اراکین سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معطلیاں ڈرامہ ہیں، سانحہ ہے پنجاب میں سنگین جرائم میں 100 فیصد اضافہ ہوا، روزانہ 10 ہزار، سالانہ 36 لاکھ جرائم ہورہے ہیں۔ جرائم کا کم گراف ظاہر کرنے کیلئے پولیس کو جرائم کی ایف آئی آرز درج نہ کرنے کی ہدایات دی جاتی ہیں۔
مبصرین کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تھانہ کلچر کی تبدیلی چاہتے ہیں۔تو عوام کیلئے ایک ایسا شکایات سیل قائم کریں جو چند منٹوں میں قانونی کی خلاف وزری کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔جس سے قبضہ گروپ،تجاوزات و دیگر جرائم میں کمی کے ساتھ ساتھ عوام کو فوری اور سستا اانصاف فراہم ہو سکتا ہے۔
تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ