پاکستان کی تاریخ میں 17 جون 2014ء کو پیش آنے والا سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک الگ ہی نوعیت کا ہے۔ جس میں درجنوں معلوم قاتل موجود ہیں لیکن 4 سال میں ایک قاتل بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ سانحہ ماڈل کا کیس دنیا بھر میں ڈسکس ہوا جس کی ایک وجہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت کا دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں نیٹ ورک کا ہونا ہے۔ اس سانحہ پر نہ صرف پاکستان میں بلکہ کئی دوسرے ممالک میں بھی احتجاج کیے گئے۔ پاکستان کی صوبائی و قومی اسمبلی میں اس پر مذمتی قراداد پیش کی گئیں۔ مسلم لیگ ن کے علاوہ پاکستان کی تمام جماعتیں اس سانحہ پر لواحقین کے ساتھ کھڑی رہی ہیں۔
سانحہ ماڈل میں شہید ہونے والے کارکن تحریک منہاج القرآن سے تعلق رکھتے تھے۔ جہاں اس جماعت میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں وہاں وکالت سے تعلق رکھنے والا بھی ایک بڑا طبقہ وابستہ ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری خود بھی قانون کے لیکچرار رہ چکے ہیں۔ پاکستانی قانون سے اتنا مضبوط تعلق ہونے کی وجہ سے سانحہ ماڈل کا کیس قانون کی تمام تر قواعد و ضوابط پورے کرتے ہوئے چل رہا ہے لیکن 4سال میں انصاف لینے میں ناکام رہا۔
آج سے 4 سال پہلے جب یہ سانحہ پیش آیا تو لواحقین کو انصاف دلوانے کیلئے تحریک منہاج القرآن کے علاوہ دیگر کئی جماعتیں بھی متحرک نظر آئی۔ مگر پنجاب حکومت کسی بھی طرح کاقانونی راستہ دینے میں رکاوٹ بن گئی۔ پنجاب حکومت نے ایف آئی آر تک درج نہ ہونے دی۔ پھر انصاف کے حصول کیلئے 14اگست 2014ء کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا گیاجس نے بعد میں دھرنے کی شکل اختیار کی، 70 دن تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ کے سامنے یہ احتجاج جاری رہا لیکن حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل نہ ملا۔ اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف کی مداخلت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی حکومت پنجاب کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ ایک طویل مدت کا یہ دھرنا آرمی چیف سے انصاف کا وعدہ ہی لے سکا۔
دھرنے کے بعد عدالتی کارروائی شروع ہوئی لیکن حسب روایت تاریخوں کا شکار ہو گئی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کئی بار میڈیا ٹاک اور پریس کانفرنس میں سابقہ آرمی چیف راحیل شریف کو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر انصاف کا وعدہ یاد کرواتے رہے۔ لیکن ان کی طرف سے پُر اسرار خاموشی رہی۔ اور اسی خاموشی میں ان کی مدت ملازمت ختم ہوئی اور شہدا ء ماڈل ٹاؤن کے لواحقین کو بے رحم عدالتی نظام کے حوالے کر کے خود اسلامک ممالک کی اتحادی فوج کی سربراہ کے منصب پر فائزہ ہوکردنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا حساب لینے پہنچ گئے۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار سے 30 دسمبر 2017ء کو آل پارٹی کانفرنس میں پاکستان کی 40 کے قریب چھوٹی بڑی جماعتوں کی طرف سے سوموٹو ایکشن لینے کی ڈیمانڈ کی گئی تھی۔ لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ اب 8 اپریل 2018ء کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں حکومتی ظلم و ستم کا شکار ہونے والی تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد سے ملاقات کی اور انصاف میں تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے۔ اس کے ساتھ بسمہ امجد کو پیار کرتے ہوئے انصاف کا یقین دلاتے ہوئے وعدہ کیا کہ میرے ہوتے ہوئے آ پ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اب آ پ کو انصاف ضرور ملے گا۔
انصاف کا وعدہ تو اس پہلے ایک چیف نے بھی کیا تھا مگر وہ وعدہ ہی رہا۔ لیکن اب ایک بار چیف جسٹس سے نہ صرف سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین کو امیدیں ہیں بلکہ پوری قوم اس وقت چیف جسٹس پاکستان کو انصاف کی آخری امید سمجھتے ہیں۔