تحریر: میاں نصیر احمد
پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ ہمارے ملک میں بجائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی پاکستان کو بنے 68 سال ہو چکے ہیں ایسا ملک جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا تاکہ سب مسلمان یہاں آزادی سے زندگی گزار سکیں سب کو ان کے حقوق ملیں پھر کیا وجہ ہے کہ نوعمر بچے اپنے بنیادی حقوق وتعلیمی حقوق سے محروم ہیں اور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں آج تک کسی بھی حکومت نے ٹھوس بنیادوں پر کوئی حکمت عملی مرتب نہیں دی جس سے چائلڈ لیبر کو روکا جا سکے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کو منشور کا حصہ بنایا اور نہ ہی معاشرے کے کسی اور طبقے کی طرف سے اس جانب کوئی پیش رفت سامنے آئی ہو ، ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی چائلڈ لیبر کو اپنے اوپر تسلیم کر لیا ہے۔
حالات سے مجبور ہوکرہنسنے کھیلنے کے دنوں میں معصوم بچے کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں جو یقیناً اس معاشرے کیلئے ایک المیہ فکر ہے بچوں کی مزدوری کے پیچھے ایک بڑی اہم وجہ غربت ہے بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیںمعصوم بچے جو کسی بھی معاشرے میں ایک پھول کی حیثیت رکھتے ہیں اور معاشرے کی ایک انتہائی معصوم اور حساس پرت ہوتے ہیں ،جن کی موجودگی سے گھروں میں رونق ہوتی ہے اور جنہیں پڑھ لکھ کر ملک کے مستقبل کا معمار بننا ہوتا ہے۔
لیکن جب حالات سے مجبور ہو کران بچوں کو ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں محنت مشقت پر مجبور کر دیا جائے تو یقیناً اس معاشرے کیلئے ایک المیہ فکر ہے پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ ہمارے ملک میں بجائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی لہٰذا چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے صرف حکومتی سطح پر ہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمہ کیلئے معاشرہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم علاج معالجہ اور انہیں کفالت فراہم کرنے کے ذرائع مہیا کرنا ہوں گے ملک بھر میںبچے کوڑا اٹھانے کا کام بھی کرتے ہیں۔
جس میں وہ ہسپتالوں کا کوڑا بھی اٹھاتے ہیں جس میں خطرناک بیماریوں میں استعمال ہونے والی پٹیاں، ٹیکے وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ بچوں کی مزدوری کے پیچھے ایک بڑی اہم وجہ غربت ہے اور بہت سے والدین اگر پیسوں کے لیے نہیں تو صرف اس لئے بچوں کو کام پر بھیجنا شروع کردیتے ہیں کہ وہ کوئی ہنر توسیکھے گا کیونکہ حکومتی نظام تعلیم میں مستری، بڑھئی یا ٹیکنیشن اور اسی طرح کے دوسرے ہنر نہیں سکھائے جاتے اورنہ ہی ایسے ہنر سکھانے والے ادارے بھی موجود ہیں تاہم غربت کے ساتھ کئی اور عوامل بھی اہم ہیں یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ امیر امیر تر ہوتے
چلے جا رہے ہیں اور غریب غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے غربت اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں پاتے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے نازک کمزور اور ناسمجھ بچوں کو کام پر لگا دیں تاکہ ان کو دو وقت کی روٹی میسر ہو سکے اور ان کی ضروریات زندگی پوری ہو سکیں سکول جانے کھیل کود کی عمر میں بچے مجبور ہیں کہ وہ دکانوں، ہوٹلوں، بس اڈوں، ورکشاپوں اور دوسری جگہوں پر مزدوری کریں اور اس طرح قوم کے مستقبل کا ایک بڑا حصہ اپنے بچپن کی خوشیوں اور یادوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے چائلڈ لیبر کے بہت سے اسباب ہیں جن کی و جہ سے والدین اپنی کم سن اولاد کو کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں عام طور پر وہ والدین جو بچوں کی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے یا کسی وجہ سے خود روزی کمانے کے قابل نہیں رہتے یا ان کی کمائی کم ہوتی ہے تو ایسے والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیتے ہیں۔ بعض اوقات والدین کی تعلیم اور شعور میں کمی بھی اس مسئلے کا سبب بنتی ہے۔ بعض لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ تعلیم کا مقصد رزق کمانا ہوتا ہے۔ پس یہ والدین بچوں کو بچپن سے ہی کسی فیکٹری، کسی موٹر مکینک یا کسی اور ہنرمند کے پاس بطور شاگرد چھوڑ دیتے ہیں تاکہ بچہ جلد روزگار کمانے کے قابل ہو سکے چائلڈ لیبر عام طور پر غریب اور پسماندہ ممالک میں ہے۔
حکومتی سطح پر ان مسئلے کی جانب عدم دلچسپی اس مسئلے کا تیزی سے بڑھنے کا سبب بن رہی ہے پاکستان میں بچوں کی مزدوری کا قانون بنے چودہ سال ہوگئے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور خود اس قانون میں بھی نئے عالمی کنوینشنز کے مطابق بہتری لانے کی ضرورت ہے مزدور بچوں پر آخری سروے 1996 میں ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں تینتیس لاکھ مزدور بچے ہیں جبکہ یہ صرف باقاعدہ کام کاج کی جگہوں پر کام کرنے والوں کی تعداد ہے مزدور بچوں کا 80فیصد تو غیررسمی شعبہ میں ہے جیسے گھروں میں اور کھیتوں میں کام کرنے والے بچے جن کا کوئی سروے دستیاب نہیں مزدور بچوں کی تعداد چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں سے بیس لاکھ مزدور بچے پنجاب میں ہیں۔ پاکستان میں بچوں کی مزدوری سے متعلق جو قوانین ہیں ان میں بچے کی تعریف میں ایسے نوعمر لوگ ہیں جن کی عمر ابھی پوری چودہ سال نہیں ہوئی جبکہ عالمی کنونشنز میں یہ عمر پندرہ سال ہے۔ ملک میں پانچ سے پندرہ سال کی عمر کے دو کروڑ بیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور یہ سب بچے کسی وقت بھی نو عمر مزدور بن سکتے ہیں یہاں پر بڑی غورطلب بات یہ ہے کہ حکومتی اداروں اور سول سوسائٹی کے ساتھ عام لوگوں کو بھی چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ آنے والے وقت میں وہ بچے جو اس قوم کے معمار ہیں ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
ُُتحریر: میاں نصیر احمد