تحریر: مجید احمد جائی
یہ اتوار کا دن تھا۔ سرکاری اداروں، سکول، کالج، یونیورسٹی میں ہفتہ وار چھٹی ٹھی۔ مگر دس سالہ ارسلان کو آج بھی چھٹی نہیں تھی۔کیونکہ ارسلان نہ ہی سرکاری آفیسر تھا نہ ہی سٹوڈنٹ۔ وہ تو ملازم تھا، غلام تھا، غربت کے ہاتھوں بک گیا تھا۔ ارسلان سے آپ واقف نہیں ہو ں گے۔
کیسے ہوتے ؟وہ تو ایک چھابڑی والے کا بیٹا ہے۔کسی پولیس آفیسر کا بیٹاہوتا،کسی وکیل،جج کا،یا کسی مشیر ،وزیر کا بیٹا ہوتا تو آپ کی واقفیت بھی ہوتی۔آپ اسے گفٹ بھی دیتے،اسے پیار بھی کرتے،اس کی خدمت کرتے۔لیکن۔۔۔۔۔ لیکن ارسلان ایسا نہیں تھا ۔وہ تو ایک ورکشاپ پہ کام کرتا تھا۔جہاں اسے معاوضہ کم اور گالیاں زیادہ ملتی تھیں۔اس کے معصوم سے چہرے پر کالک ہی کالک ،کپڑے پھٹے پرانے،وہ ہماری گاڑیاں مرمت کرتا ہے اور ہم اسے حقارت کی نظر دیکھتے ہیں۔جسے ہم انسان نہیں بھوت سمجھتے ہیں۔
جس دن ارسلان اور اس جیسے ہزاروں مزدور بچے چھٹی کرتے ہیں اگلے دن استاد صاحب تھپڑوں کے ساتھ ساتھ گالیوں سے ویلکم کرتا ہے۔اس بات کا میں بھی شاہد ہوں۔اس دن میں اپنی بائیک مرمت کروانے کی غرض سے گیا تھا۔وہاں جو منظر میں نے دیکھا،اُف توبہ،آج تک میری روح کانپتی پھرتی ہے۔
تڑخ کی آواز سے میں چونکا تھا۔نظروںنے آواز کا تعاقب کیا تو سامنے ننھا سا بچہ گال پہ ہاتھ رکھے رو رہا تھا۔جس کی عمر بمشکل دس سال ہو گی۔اس کے استاد صاحب جو استاد کم جلاد زیادہ لگتے تھے،منہ میں پان لئے ہوا تھا،پان چباتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ابے حرام کی اولادتجھے نظر نہیں آتا تھا،شاید اس سے کوئی غلطی سر زد ہوئی تھی جس کی پاداشت میں لمحوں میں ایک انسان کے بچے کو انسان نے حیوانوں کی لسٹ میں شامل کر لیا تھا۔ابے سوری کے بچے اب میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے چل کا م کر۔وہ بچہ سسکیاں لیتا ہوا کام میں جت گیا۔
اس معصوم بچے جیسے ہزاروں بچے روزانہ ورکشاپ، ہوٹلوں، صابن فیکٹریوںمیں کام کرتے ہیں۔نمکو،بسکٹ فیکٹریوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔موٹر سائیکل مرمت کرتے،بڑی بڑی گاڑیوں کے آئل تبدیل کرتے نظر آتے ہیں۔ہم آنکھوں پر دولت کی پٹی باندھے اپنے کام کروا رہے ہوتے ہیں۔یہ بھی تو انسان ہیں۔انسانوں سے جنم لیا ہے۔کیا ان کو انسانوں میں عزت کے ساتھ جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ان کی بنیادی ضروریات نہیں ہیں۔
ایسے ہزاروں بچے ہمارے سیاستدان ،قانون دان،وزیر،مشیر حتی کہ وزیراعظم ،صدرروز دیکھتے ہیں۔کئی تو ان کی ہی گاڑیوں کی زد میں آکر مر جاتے ہیں۔پھر یہ لوگ خاموشی کا لبادہ کیوں اوڑھے ہوئے ہیں۔ہماری گاڑیاں مرمت کرنے والے،ہماری فیکٹریاں چلانے والے،ہمیں زرمبادہ کما کر دینے والوں کا کوئی حق نہیں ہے۔ان کا حق ہے تو پھر یہ اپنے حق سے محروم کیوں ہیں؟ان کا حق کیوں دبائے جاتے ہیں۔ان کو بھی جینے کا حق ہے۔یہ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔
ہم نے چائلڈ لیبر کے قوانین تو بنا دئیے ہیں ان پر عمل درآمد کون کروائے گا۔؟کوئی بھی ان پر عمل کرنے کو راضی نہیں ہے۔ہمارے آئین میں چائلڈ لیبر کے قوانیں موجود بھی ہیں۔لیکن پھر بھی ہزاروں کی تعداد میں بچے جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہیے تھیںاوزار سنبھالے ہوئے ہیں۔روز گالیاں کھاتے ہیں۔روز مرتے ہیں ،روز انسانوں سے حیوانوں میں گرادنے جاتے ہیں۔قصور وار شاید یہی بچے ہیں کیونکہ وہ اس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔اسی سانس کی قیمت چکا رہے ہیں۔ قانون بنانے والے قانون بنا کر سرخرو ہو گئے۔عمل کروانے والے اپنی تجوریاں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ہوس کی آگ نے انھیں مردہ کردیا ہے۔ان کی آنکھیں صرف اور صرف ہرے بھرے نوٹوں پر مرتی ہیں۔
میں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھے ہیں۔جب بھی کوئی ٹیم کسی فیکٹری پر چھاپے کی غرض سے نکلتی ہے۔ان ہی کے آفس سے ان کو کال کرکے آگا ہ کردیا جاتا ہے۔ٹیم کے پہنچنے سے پہلے کم سن بچوں کو چور راستوں سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔جب ٹیم آتی ہے توکچھ نہیں ملتا۔کولڈ درنک پیتے،فائلیں کالی کرتے،نذرانے وصول کرتے چلے جاتے ہیں۔فیکٹریوں والے نذرانے دے کرسینہ تان کر اپنا کاروبار چلارہے ہوتے ہیں۔نہ کسی کو رحم آتا ہے،نہ کسی کو شرم آتی ہے۔
سچ تو یہ ہے جہاں اندھا قانون ہو،جہاں لیٹروں کو اعلیٰ منصب پہ بٹھایا گیا ہو،وہاں نہ امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی غریب سکھ کا سانس لے سکتا ہے۔نہ ترقی کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔جو ا پنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھاتے ہیں اور غریبوں کے بچوں کو سرکاری اسکولوں کی بھی ہوا تک نہیں لگنے دیتے۔وہ ڈرتے ہیںغریب کے بچے پڑھ لکھ گئے تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی یہ ملک ترقی کر جائے گا۔ان کا منشور یہی ہے کہ نہ غریب کے بچے پڑھ لکھ سکیں اور نہ ہی ملک ترقی کر پائے تاکہ ہمارا سکہ ہمیشہ قائم رہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس وطن نے جو ترقی کی وہ غریبوں کے ہی مرہون منت ہے۔اس ملک کو غریب لیڈروں نے ہی حاصل کیا تھا۔شایدیہ لوگ قائد اعظم کو بھول گئے ہیں۔آج جس نوٹوں کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں اس پر بھی قائداعظم کی تصویر ہے۔
اگر یہی حال رہا تو یہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ آج بھی غریبوں کے بچے ہوٹلوںپہ برتن صاف کرتے ہیں،گلی محلے میںکوڑاکرکٹ چنتے ہیں۔کم معاوضے پر بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ان کو انصاف کون دلائے گا۔ان کے ہاتھوں میں کتابیں کون دے گا۔اگرآج بھی اقتدار میں بیٹھنے والے خاموش بیٹھے رہے تو ان معصوموں کے آنسو عرش پر فریادی ہو جائے گے اور وہ رب انصاف کرنے والا۔
تحریر: مجید احمد جائی
0301-7472712
majeed.ahmed2011@gmail.com