سمجھ نہیں آرہی کہ اس میں سنسنی خیزی اور حیرت کیسے اور کیونکر ڈال دی گئی یا شاید ہر بات کا بتنگڑ بنانا ہماری سیکنڈ نیچر بن چکی ہے۔ چائلڈ میرج ترمیمی بل کے معاملہ پر وفاقی وزراء علی محمد خان اور شیریں مزاری میں اختلاف پر اعتراض کیا؟ دونوں سوچنے سمجھنے، محسوس کرنے والے پڑھے لکھے لوگ ہیں، ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے دو ’’جڑواں‘‘ پرزے نہیں کہ ایک ہی طرح سوچیں اور ایک ہی طرح ری ایکٹ کریں۔ذاتی طور پر میں شیریں مزاری کے ساتھ متفق ہوں کیونکہ مومن کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہد، عصر اور زمانے کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہوتا اور اس کے تقاضوں کو سمجھتا ہے اور اسی بات کو اس طرح بھی سمجھایا اور واضح کیا گیا ہے کہ ’’مومن کی فراست سے ڈرو‘‘ یعنی جو شخص اپنے عہد کے تقاضوں اور ضروریات سے ہی واقف نہیں……..وہ کیا اور اس کی فراست کیا؟ عہدِ حاضر 1500سال پرانا سیدھا سادہ قبائلی معاشرہ نہیں، انتہائی پیچیدہ دور ہے جس کی اقتصادیات ہی کسی طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔ آج روئی کے شپ لوڈ سے چند کلو کا اک پرزہ کہیں زیادہ مہنگا ہے۔ دنیا کی آبادی ہزاروں سے ضرب کھا چکی ہے۔ وسائل سکڑتے اور مسائل پھیلتے جا رہے ہیں۔ زندگی جو کبھی بہت سستی تھی، آج بہت مہنگی ہو چکی اور اس کے چیلنجز مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔بچیوں کا
پڑھنا لکھنا، تعلیم یافتہ ہونا بلوغت سے بھی آگے کی بات ہو چکی۔ تعلیم یافتہ مائیں ہی ان نسلوں کی پرورش کر سکتی ہیں جنہوں نے اس گلوبل ویلیج میں سروائیول آف دی فٹسٹ کے قانون کی روشنی میں زندہ رہنا ہے۔ زندگی آج ہی اتنی مہنگی اور مشکل ہو گئی ہے کہ اک معقول آمدنی والا شخص بھی تن تنہا کنبے کی کفالت کو مشکل تر ہوتے دیکھ رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ’’حیات‘‘ کے لئے ہر دو ’’شریک حیات‘‘ کو اک دوسرے کا ہاتھ بٹانا ہوگا۔ عورت کو جنیڈر سے ماورا اک انسان کی حیثیت سے باہنر، باعلم اور مضبوط بنانا صرف ترقی کا مسئلہ ہی نہیں رہ گیا… ’’سروائیول‘‘ کی بات ہے۔ عمومی اقتصادی دبائو سے لے کر کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے علم و ہنر سے آراستہ بلکہ ’’مسلح‘‘ ہوئے بغیر آسودہ زندگی کا تصور بھی ناممکن سمجھو۔آدھی بلکہ آدھی سے بھی کچھ زیادہ آبادی کو بیک جنبش جہالت عضو معطل بناکر کسی معاشرہ کا مقابلہ کی دوڑ میں باعزت رہنے کا تصور کم از کم میرے لئے بہت محال ہے اور شاید ایسے ہی حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے علی شریعتی نے کہا تھا”اصولوں کا بدلنا ضرورتوں کے بدلنے کے ساتھ اور اصولوں کا نہ بدلنا ضرورتوں کے نہ بدلنے کے ساتھ”اس عہد کی ضرورت ہے عورت کو عورت کے ساتھ ساتھ ہی انسان بھی سمجھا جائے اور بطور انسان اسے مضبوط کیا جائے لیکن ہم نے تو مردوں کو بھی انسان نہیں سمجھا ورنہ شرح خواندگی اتنی شرمناک اور تعلیم کا معیار اتنا گرا ہوا نہ ہوتا۔ معاشرت سے لے کر معیشت تک جس زبوں حالی کا سامنا ہے، کبھی نہ ہوتا اگر انسان سازی پر توجہ دی جاتی۔ ہر تعلیم اور تربیت یافتہ انسان ’’سونے کی کان‘‘ اور ’’تیل کا چشمہ‘‘ ہوتا ہے تو دوسری طرف علم مومن ہی نہیں مومنہ کی بھی گمشدہ میراث ہے اور بات صرف بچیوں تک ہی محدود نہیں…. لڑکوں کو بھی بالغ ہوتے ہی بیاہ دیا جائے تو یہ کون سی توپیں چلالیں گے… لمبی بحث ہے جو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اللہ ہمارے کرتوں دھرتوں کو مثبت اور بہتر فیصلوں کی توفیق عطا فرمائے لیکن اتنا ضرور یاد رہے کہ کسی بھی مسئلہ پر اختلاف انسان ہونے کا ثبوت اور زندگی کی علامت ہے ورنہ اشیاء اور مردے ہمیشہ متفق پائے جاتے ہیں۔رہ گیا بھانت بھانت کی اشیاء کا پی ٹی آئی میں جمع ہو کر اس پر قبضہ کر لینا تو ہماری تاریخ ہی کچھ ایسی ہے۔ ہم جمہوریت کی آڑ میں دراصل جوا کھیلتے ہیں۔ ہم سیاسی تاش کو پھینکتے نہیں صرف پھینٹتے ہیں جس کے بعد کوئی جیتے، ہارنا عوام نے ہی ہوتا ہے البتہ جوا خانوں کے نام مختلف ہوتے ہیں مثلاً پی پی پی، ن لیگ، پی ٹی آئی…. اور مخصوص جواری بلکہ شارپنگ ایکسپرٹس مختلف جوا خانوں میں بازیاں جیتتے رہتے ہیں…. عوام ہارتے رہتے ہیں۔