لاہور(ویب ڈیسک)اولاد اللہ کریم کا ایک بہترین تحفہ ہے۔ بیٹے کی صورت میں نعمت کہا گیا ہے اور بیٹی کورحمت ۔ انسان کا۔ ثم اشرف المخلوقات بننا اور اللہ تعالیٰ کا روئے زمین پر انسانی آبادی کا پھیلانا یہ بھی اللہ کریم کے رازوں میں ایک راز ہے ، اس رازکورب العزت ہی بہتر جانتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جوڑے بنائے اور پھر ادلاد سے نوازنا ایک خاصفضل ہے۔ بچہ بڑا ہوتا ہے، بلوغت کی طرف قدم بڑھانا شرو ع کرتا ہے۔ ماں باپ انگلی سے چلانا سکھاتا ہے۔ پھر وہ خود بخود چلنے لگتا ہے۔ سکول سے ہوتا ہوا کالج اور کالج سے ہوتا ہوا یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی زندگی کے کیرئر کا آغاز کرتا ہے۔ ان مختصر دو لائن میں زندگی مکمل ہو گئی۔ لیکن بچپن سے لے کر یونیورسٹی تک کیا بیتی، کیا کھویا اور کیا پایا والدین سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔ والد اس کے بہتر مستقبل کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے۔ اپنا پیٹ کاٹ کر اس کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے پروان چڑھاتا ہے۔ ماں سردی کی سنگلاخ راتوں میں خود گیلی جگہ پر سو جاتی ہے اور اپنی اولاد کو خشک اور گرم جگہ پر سلا دیتی ہے۔ اپنا خون پلاتی ہے۔ کھانے کا وقت آئے تو کہتی ہے مجھے بھوک نہیں بیٹا آپ ہی کھا لو۔ ماں گھر میں پڑے ہوئے تین سیب پلیٹ میں لاتی ہے۔ تینوں بیٹوں کو ایک ایک دے دیتی ہے۔ ایک بیٹا پوچھتا ہے کہ ماں جی آپ نے نہیں لیا۔۔۔ماں کی محبت قربان ہو جاتی ہے وہ کہتی ہے کہ مجھے سیب پسند نہیں۔ باپ دن رات کرکے گھر کا کچن چلاتا ہے۔چھوٹا موٹا کاروبار کرتا ہے ۔ سارا نفع گھر میں لاتا ہے۔ عید آتی ہے۔ اپنے بچوں کے لیے اپنی خوشیاں قربان کر تے ہوئے بچوں کو کپڑے اور جوتے خرید کر دیتا ہے۔ بچوں کے چہر ے پر مسکراہٹ دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتاہے۔ ایک بیٹا پوچھتا ہے کہ اباجی آپ بھی جوتا خرید لیں۔ باپ مسکرا کر یہ کہہ کر ٹال دیتا ہے بیٹا پچھلی عید پر ہی تو نیا خریدا تھا ، پالش کروں گا تو چمک جائے گا۔ اصل عید تو میرے بچوں کی ہے۔ باپ کو کاروبار میں منافع ہوتا ہے۔ کاروبار بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ دن رات دبے گزرتے جار ہے ہیں ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کے مارکیٹ میں ایک اچھے اور پر اعتماد نام سے پہچان ہونے لگتی ہے۔ چیک پر بڑی بڑی خریدو فروخت شروع ہوگئی۔ وقت کو پَرلگ گئے تیزی سے گزرتا گیا ۔ دولت کی ریل پیل شروع ہو جاتی ہے۔باپ بیمار ہو جاتا ہے۔ علاج معالجہ کروایا جاتا ہے لیکن وہ سب بے سود نکلتا ہے۔ ایک دن ایساآتا ہے کہ باپ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ تمام کاروباری لوگوں کو اس کی موت کی اطلاع ہو جاتی ہے۔ مارکیٹ میں ایک نام تھا کچھ لوگ دنیا داری اور کچھ لوگ دین کے لیے آنا شروع ہو گئے۔ اس میں کچھ کاروباری حضرات بھی تھے جنہوں نے مرحوم سے کچھ لینا تھا اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے کچھ دینا بھی تھا۔ میت کو غسل دیا جاتا ہے ، کفن پہنا کر خوشبو لگا کر ، گلاب کے پھول کی تروتازہ پتیاں اوپر ڈال کر جنازگاہ میں لا یا جاتا ہے۔نماز جنازہ کے لیے صف بندی ہوتی ہے ، مولوی صاحب جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھے اور تمام لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ مرحوم نے ایک عرصہ دنیا میں زندگی گزاری ہے کہا سنا معاف کرو تاکہ اس کا آخری سفر آسان ہو جائے۔ اگر مرحوم کا کوئی لین دین ہے اس کے بیٹے موجود ہیں جنازے کے بعد یا مناسب موقع پر مرحوم کے بیٹوں سے لین دین کلیئر کر لیا جائے ۔اتنے میں ایک آدمی صفیں توڑتا ہوا ہے جنازے کے پاس جاکھڑا ہوا ہے کہتا ہے کہ مرحوم کے دستخط شدہ یہ چیک ہیں ان کی ادائیگی کی جائے پھر جنازہ پڑھتے ہیں۔ اچانک تمام نمازیوں میںایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ مولوی صاحب نے مرحوم کے بیٹوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا بھئی ان کا حساب کلیئر کیا جائے۔تو سنیئے! میں قربان جاؤں ایسے بیٹوں پر جن کے لیے مرحوم نے اپنا من تن دھن سب لوٹا دیا اور آج کروڑوں کی جائیداد اور بنک بیلنس چھوڑ کر دنیا ئے فانی سے رخصت ہو رہا ہے۔ آخری دیدار کا وقت ہے۔ بیٹےآگے بڑھتے ہیں ، اس بیوپاری سے کہتے ہیں ایمبولنس ہم کروا دیتے ہیں میت کو ساتھ لے جائیں اور جنازہ بھی وہاں پڑھا لیں اور وہی کفن دفن بھی کر دینا۔ کیونکہ آپ کا لین مرحوم کے ساتھ تھا لہذا ہمارا آپ سے کوئی لین دین نہیں ہے۔ تو دوستو! بتائیے یہ سب کیا اور کیوں کر ہوا۔ مرحوم نے جو دولت کمائی وہ جائز تھی یا ناجائز منافع خوری تھی یہ سب پروردگار ہی بہتر جانتا ہے لیکن جس ا ولاد کے لیے اتنا بڑا کاروبار ، جائیداد ، بنک بیلنس چھوڑا وہ کس کام آیا۔ بہت کا ذکر آتا ہے کہ اولاد ، مال و دولت انسان کے لیے فتنہ اور آزمائش بھی ہے۔ اسی طرح کا ایک اور و اقع اسی ہفتے ویڈیوکلپ دیکھنے کا موقع ملا جس میں باپ کا ایک اکلوتا بیٹا ہے۔باپ کا ،70, 80 کروڑ کا بزنس ہے ۔لیکن اکلوتے بیٹے نے تھپڑ مار کر گھر سے نکال دیا ہے اور آج وہ باپ بے بسی کے عالم میں لاہور کے پارکمیں درختوں کے نیچے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ ایک دن میں اپنے جاننے والے کے پاس بیٹھا تھا ، باتوں باتوں میں بات نکلی میں نے اس ارب پتی صاحب سے کہا کہ اگر آپ یہ وصیت کر جائیں کہ جو ڈرائنگ روم میں فلاں ٹائل لگی ہوئی ہے میرے مرنے کے بعد اس ٹائل کو کتبہ بنا پر میری قبر پر لگا دینا ، تو کیا خیال ہے آپ کی اولاد ایسا کرے گی۔ اس نے کہا نہیں ۔ پھر میں نے کہا سر اس دولت کا کیا فائدہ ۔ اس کو غریبوں کی بھلائی کے لیے بکھیر دو ایسا نہ ہو کل وبال جان بن جائے۔ اس آرٹیکل تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی اولاد اور مال و زر اس حدتک رکھو جو بوقت ضرورت آپ کا سہارا بن جائے ، ورنہ یہ دولت بنک ہی استعمال کرتا ہے ۔ آپ کو صر ف ذہنیسکون ہے کہ میرے پاس اتنا بڑا بنک بیلنس ہے۔ لیکن اس رقم کو استعمال بنک ہی کر رہا ہے ،اس سے بہتر ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت اور معاشرہ کی تربیت پر خرچ کرو جاؤ تاکہ معاشرہ اولاد سے بہتر بن کر آپ کی تدفین کر سکے ۔ اولاد کی اچھی تربیت ہو گی تو آپ کو سکون ہو گا۔ اس تحریر کو بغور پڑھنے کے بعد ذرا سوچیں کہیں ہم بھی تو ایسا نہیں کر رہے کہ میری تدفین بھی کوئی محلہ دار ہی کریں ۔جاتے جاتے زندگی میں حقوق العباد کا بول بالا کر جائیں کیونکہ دولت آپ کی سانسیں بند ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی ۔ لیکن آپ کے نیک اعمال ہی آپ کے ساتھ جائیں گے۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ جو آپ نے کھا لیا ، جو پہن لیا یا جو اپنے ہاتھ سے کسی کو صدقہ یا تحفہ سمجھ کر دے دیا وہی آپ کا ہے باقی سب بیگانہ ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو اسوہ حسنہ پر عمل کی توفیق فرمائے آمین