تحریر : عارف رمضان جتوئی
پنجاب کے علاقے حویلی لکھامیں باپ نے خود کو استرے مار مار کے لہولہان کردیا۔ انہیں تشویشناک حالت میں جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔ بات مقامی پولیس تک پہنچ گئی۔قابل عزت باپ سے معلوم کیا گیا تو پتا چلا کہ بیٹے اس کا علاج نہیں کراتے وہ گزشتہ 3 ماہ سے بیمار ہے۔ خبروں میں سے اس خبر پر نظر پڑی تو ایک لمحے کو نگاہ ٹھہر گئی۔ دل تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا کہ باپ کے ساتھ بچے ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔ حالانکہ وہ تو جانتے ہیں کہ یہ وہیںوالد محترم ہیں کہ رات کی تاریکی میں بچے نے آہ کیا بھری پوچھا کیا ہوا، بتایا گیا پیٹ میں تکلیف ہے کچھ پل کو سوچا اور پھر فوراً ہی پڑوسیوں سے موٹر سائیکل لے کر آئے رات کے اس پہر جا کر اپنے بچے کے لیے دوا خرید لائے۔ مجھے اب تک یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنے میں خبر کا اگلا جز بڑھا۔ پولیس نے جوان سالہ بچوں سے پوچھا تو انہوںنے کہا کہ بزرگ کا ذہنی توازن درست نہیں۔ وہ کچھ بھی کر لیتے ہیں۔
بات معقول تھی۔ ایک بڑے میاں سٹھیا ئے ہوئے لگ رہے تھے۔ عمر کچھ خاص نہیں تھی۔ ساٹھ سال کے بھی نہیں ہوئے تھے۔ پھر بھی سٹھیا ئے ہوئے تھے۔ کافی دیر ان کو خاموش بیٹھا دیکھ کر میں نے پوچھ ہی لیا۔ باباجی کیا بات ہے۔ کافی گہری سوچ میں گم ہیں۔ میری طرف دیکھا اور کچھ اردو اور اپنی علاقائی زبان کے ملاوٹ سے بولے۔ ”بچہ کھو گیا ہے“۔ اوہ۔ کب ، کیسے، کہاں، کیا عمر تھی بچے کی؟ میرے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔ انہوںنے مجھے دیکھا اور بولے 30 سال عمر تھی۔ ”30 سال کا بچہ تھا“۔ میں کچھ حیران ہوا اور پوچھا ، کیا مطلب بچہ تو نہیں ہوا نا! وہ کہنے لگے بیٹا اولاد والدین کے لیے بوڑھاپے تک بچوں کی طرح ہی ہوتی ہے، اور پھر ان کے آنکھوں سے آنسو جھلک پڑے۔
کراچی پریس کلب کے باہر بھی ایک باپ ملے۔ پیروں میں چپل ٹوٹ چکی تھی، چھوٹے سے بیٹے کو دھوپ اور گرمی سے بچانے کے لیے پاس ہی کہیں بیٹھا کر آئے ہوئے تھے۔ بابا جی کیا بات ہے۔ سوال کرتے ہی ان کی آنکھیں جھلکیں اور پھر بولے۔ ہم پنجاب سے آئے تھے اپنے بڑے بیٹے کا علاج کروانے۔ مگر وہ کہیں کھو گیا ہے۔اب اسے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ کیسے ہوا؟ کیا ہوا؟ ان سب سوالات کے جوابات ہاتھ میں پکڑے پریس ریلیز کی صورت میں ایک کاغذ پر موجود تھے۔ میں اب حیران تھا کہ اتنا محبت کرنے والے مشفق والد کے بیٹے یہ سب کیسے کرسکتے ہیں۔ مجھے ایک میسج موصول ہوا۔ لکھا تھا ، آج دفتر میں کام بہت تھا۔ میں تھکا ہوا گھر آیا اور آتے ہی لیٹ گیا۔ابو فوراً کمرے میں آئے انتہائی شفقت سے حال احوال پوچھا اور میں نے تھکاوٹ کہ باعث بے دلی سے جواب دیا۔ وہ زیر لب دعا دیتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چلے گئے تھوڑی دیر بعد بیگم کمرے میں آئی تو میں نے کہا بچے کہاں ہیں بہت تھکا ہوا ہوں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دیکھوں گا تو تھکاوٹ اتر جائے گی۔
بیگم فوراً صحن میں کھیلتے میرے ننھے منے بچوں کو لے آئے جو آتے ہی مجھ سے لپٹ گئے میں بھی ان کو دیکھ کر ساری تھکاوٹ بھول گیا اور ان پر شفقت پدری نچھاور کرنے لگا لیکن چند لمحوں بعد ہی والد محترم کا جھریوں بھرا چہرہ آنکھوں کہ سامنے گھوم گیا کہ وہ بھی شفقت پدری سے مجبور اپنے بیٹے کو دیکھنے آئے تھے اپنی اولاد کو دیکھنے اپنی شفقت پدری نچھاور کرنے لیکن میری بے رخی کے باعث وہ بیٹھ ناسکے اتنا سوچتے ہی میری آنکھوں کہ سامنے اندھیرا چھانے لگا دم سینے میں گھٹتا محسوس ہونے لگا بچوں کو چھوڑا اور دوڑتا ہوا والد محترم کے کمرے میں جا پہنچا جو اپنی چارپائی پر لیٹے نا جانے کن سوچوں میں گم چھت کو دیکھے جا رہے تھے میں ان کی چارپائی پر ان کہ قدموں میں جا بیٹھا اور ان کی ٹانگیں دبانے لگا ابو فوراً اٹھے اور مجھے سینے سے لگا لیا نجانے کیوں ہم باپ بیٹا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے میں تسلیم کرتا ہوں کہ ایسی راحت مجھے کبھی نا ملی جو باپ کہ سینے سے چمٹ کر ملی۔
میں اب بھی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ اتنا محبت بھرے باپ کے بچے کیسے تین ماہ سے بیمار دیکھ کر دوا نہیں لی۔ اور پھر پتا چلا کہ وہ چلے بسے۔ بچوں نے تدفین بھی کردی۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ بچوں کی بیوی اپنی ماں سے کہہ رہی تھی ”خدا خدا کر کے بڈھا اپنی موت آپ ہی مر گیا“۔ یہ الفاظ میں سن نہیں پایا تھا۔ میری سوچ جواب دے گئی تھی۔ بچوں کی بے رخی کی یہ انتہا دیکھ کر نا جانے والدین کتنی بار روز مرتے ہوں گے۔ ایک معروف بات یاد آگئی کہ ایک والد موبائل ریپیرنگ والے کے پاس آیا اور کہا بیٹا ذرا اسے دیکھنا لگتا ہے خراب ہوگیا ہے۔ مکینک نے دیکھ کر بتایا کہ بابا جی یہ بالکل ٹھیک ہے۔ بابا نے کچھ دیر سوچتے ہوئے کہا ”پھر میرے بچوں کا فون کیوں نہیں آتا“۔
خدارا اپنے والدین کی عزت کریں۔ اگر نہیں ہوسکتی تو کم از کم یہ کرلیں کہ انہیں یہ احساس نہ ہونے دیں کہ آپ ان کے وجود کو اپنے لیے شفقت کے بجائے زحمت سمجھتے ہیں۔ آپ کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ آپ کی ہلکی سی بے رخی سے ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ میں نے اکثر بڑے بزرگوں کو بہت خاموش دیکھا ہے۔ کئی بار سوچا کہ پوچھوں اور جب کبھی ہمت کر کے پوچھ لیا تو سوائے آنسوں کے جھلکنے کے کچھ وصول نہیں ہوا۔ دادی کیوں روتی ہیں۔ بولیں بیٹا بہت دل چاہتا تھا ہے کہ بچے ہمارے ساتھ بیٹھیں باتیں کریں۔ مگر اس بے ہنگم دور میں کسی کے پاس ہمارے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ ہم بات کرتیں ہیں تو اکثر اوقات کہا جاتا ہے کہ ”سر کھاتی ہیں“۔ ان کا وقت خراب کرتی ہوں تو بہتر ہے خاموش ہی رہوں۔
وقت نہیں ہے۔ کن کے پاس وقت نہیں ہے۔ وہ جو اجنبیوں کو اپنا کہہ کر پوری رات فون پر بات کرتے ہیں۔ یا وہ جنہیں سوشل میڈیا کی بے تکی اور فضول ویب سائٹ پر چیٹنگ کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔ بیٹا تمہیں نہیں معلوم آج کے بچے بہت پڑھے لکھے ہوگئے ہیں۔ کمپیوٹر چلا لیتے ہیں میرے پوتے۔ دادی اماں نے خوش ہوتے ہوئے کہا اور میں پردہ فاش ہونے کے ڈر سے خاموش رہا۔ میں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا کر کہا واقعی بچے بہت مصروف ہیں کیوں کہ وہ ساری رات انٹرنیٹ پر پڑھائی کرتے ہیں۔
ناجانے کیوں ایسا لگتا کہ والدین جب جب تکلیف میں آہ بھرتے ہیں تب تب ہمیں کوئی غائب سے کہتا ہے کہ تم ناکام ہوگئے۔ ناجانے کیوں احساس ہوتا ہے کہ جب جب وہ ہمیں آواز دے کر پھر ہماری راہیں تکتے رہے جاتے ہیں تب تک کوئی ہمیں لعنت ملامت کرتا رہتا ہے۔
جدید بیوی کے جدید بچے اور پھر ان کے ساتھ رہنے والے شوہر اور باپ نما بیٹے کو نہیں معلوم کے جدت بڑھتی جارہی ہے۔ آج سے کل اور زیادہ بے حس ہورہا ہے۔ بچوں کو اتنا جدید مت کریں کہ جب آپ کی باری آئے تو جدت آسمان کو چھورہی ہو۔ آج آپ کو اپنے والدین 50 سال کی عمر میں برے لگنے لگے ہیں تو کل آپ اپنے بچوں کو 25 سال میں برے لگنے لگیں۔ ایک پل کو آپ بتائیں کہ آخری بار اپنے والدین کے ساتھ کچھ پل صرف اولاد بن کر بتائے تھے۔
کچھ پل کو انہیں یہ احساس دلایا تھا کہ آپ ان کی اولاد ہیں، آپ ان کے بچوں ہیں یا پھر بچوں کے بچے ہیں۔ اگر زیادہ وقت ہوگیا ہے تو اٹھیں اور ابھی انہیں ملیں۔ ان سے اردو میں معافی مانگیں اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کردیں۔ یاد رکھیں دنیا مکافات عمل ہے۔ آج جو کریں گے کل وہیں ہوگا۔ ذرا سوچئے۔
تحریر : عارف رمضان جتوئی
arif.jatoi1990@gmail.com
03136286827