تحریر : قراة العین
ہمارے پیارے رسول خاتم النبین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب دور جاھلت کے وحشی نما حیوان کو انسان بنا کے اندھیروں سے روشنیوں میں لاے وہاں یہ کیونکر ممکن نہیں کہ بچے جو گلاب کے پھول کی طرح معصوم ہوتے ہیں ان کی اصلاح نہ کی جا سکے۔اولاد کی خواہش انسان کیوں کرتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی نسل بڑھے اور اس کا نام روشن کرنے والی خدا کی نام لیوا نیک اور صالح اولاد ہو مگر یہ خواب پورا کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی اصلاح کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔جب خود انسان گناہوں کی دلدل میں دھنسا ہو اور یہ امید رکھے کہ اولاد نیک ہو جاے گی یہ ممکن نہیں ہے۔یہ سراسر خام خیالی ہے۔جب تک انسان خود تقوی کی راہوں کا راہی نہ ہوگا اولاد بھی ہرگز صالح نہ ہوگی۔کیونکہ بچہ عمل کا نمونہ کا متقاضی ہوا کرتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بچہ نقال ہوتا ہے۔
جب مایں نیکیوں کی جانب مائل ہوں گی تو اولاد پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔جب بچہ ماں کو صلوت کا پابند پاے گا تو خودبہ خود ہی وہ نماز کی ادایگی میں پابندی کرے گا۔بچوں کو چھوٹی چھوٹی دعایں یاد کروای جایں جب بچہ سونے لگے تو سونے کی دعا بتای جاے۔والدین کا یہی فرض نہیں ہوتا کہ اولاد کو دنیاوی تعلیم دلوای جاے بلکہ دینی تعلیم دلوای جاے قرآن پاک کی تعلیم دلوای جاے تاکہ دین کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو تربیت تو خود بہ خود ہوگی جب قرآن پاک پر عمل کیا جاے گا۔وہی بچہ بے دین اور بگڑا ہوا ہوگا جس کے والدین خود دین پر عمل پیرا نہیں ہوں گے۔
بچوں کے دل میں رزق کی عزت ڈالیں یہ شعور اجاگر کریں کہ یہ رزق خداوندی ہے یہ رزق کتنی مشقتوں کے بعد ملا ہے۔بچہ کھانا بھی کھاے گا اور اس کی قدر بھی اس کے دل میں جاگزیں ہو گی۔لغو بے سروپا بے مقصد کہانیاں سنانے کی بجاے اللہ اور اس کے رسول کی باتیں بیان کی جایں۔یوں بچہ بڑھتی ہوی عمر کے ساتھ بے راہ روی کا شکار نہ ہو گا بلکہ اسلام کا نام لیوا ہو گا۔نہ ہی آوارگی کی جانب مائل ہوگا بلکہ اس کے۔دل میں واحدہ لا شریک اللہ کی محبت جاگزیں ہو گی۔بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ ماں بچے کو باہر بھیج دیتی ہے کہ یوں اس کو فرصت کے چند لمحات مل جایں گے۔مگر ماں کو معلوم نہیں ہوتا کہ بچہ باہر کی دنیا۔کے کون۔کون سے نقش دل پر ثبت کر کے آیا ہے۔جو اس کی تمام زندگی پر محیط ہو سکتے ہیں۔اس لیے جہاں تک ممکن ہو بچوں کی اصلاح کی خاطر ان کو تنہا نہ چھوڑا جاے ان کی عاقبت کے لیے دعا کی جاے۔بڑوں کا ادب کرنے کا بتایا جاے۔بچے کے دل میں حق کو حق اور بدی کو بدی سمجھنے کا احساس اجاگر کیا جاے۔
اگر والدین جھوٹ بولیں گے تو بچہ بھی جھوٹ بولنے لگے گا اور اس کو بہت معمولی خیال کرے گا۔اسی طرح اگر مایں گالی گلوچ دیں گی تو بچے بھی بلا دریغ گالی گلوچ دیں گے۔بعض اوقات والدین۔بچے سے کوی بات چھپانے کی غرض سے جھوٹ بول دیتے ہیں۔پھر بچے بھی یہی روش اپنا لیتے۔ہیں۔وہ والدین سے باتیں چھپانے لگتے ہیں ہیرا پھیری کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔پھر یہ ہیرا پھیری باتوں کی حد پھلانگ کر چوری چکاری تک چلی جاتی ہے۔غریب والدین کی اولاد جب دوسرے کے بچوں کو آسودہ حال دیکھتی ہے تو احساس محرومی کا احساس اجاگر تو جاتا ہے۔اگر بچے کی تربیت میں اس پہلو کو مدنظر رکھا جاے کہ جتنا ملے اس میں راضی بہ رضا رہو اور عملا کر کے اپنی ذات کے نمونے پیش کیے جایں۔اسی طرح جن بچوں کے گھروں میں مال و دولت کی فراوانی اور آسودگی ہوتی ہے۔ان کے نزدیک دولت ہر شے کے حصول کا آسان اور سستہ ذریعہ ہوا کرتا ہے کھلا جیب خرچ بچوں کے دلوں میں تکبر کی عادت کو راسخ کرتا ہے خاص کر۔
مایں اس معاملے میں اولاد کی پردہ پوشی کرتی ہیں۔جو مزید بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔بچوں کے اخلاق خراب کرنے میں اور اخلاق سنوارنے میں ان ماوں کا اہم کردار ہوا کرتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کو روزانہ اتنا ہی جیب خرچ دیا جاے جتنی بچے کو ضرورت ہو۔اسراف اور بے جا مال و دولت بچوں کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہوتی ہےبچے اس قوم کا کل اور معمار ہوتے ہیں اگر پہلی اینٹ ہی غلط رکھی جاے گی اور ٹیڑھی ہو گی تو باقی عمارت تو یوں ہی تہ و بالا ہو جاے گی۔
ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ بچے کی روزمرہ ہونے والی ساری روداد کو انتہای دلچسپی سے سنا جاے۔تاکہ وہ ہر بات بلا جھجھک ماں سے کہنے کے عادی ہوں اور جہاں کہیں اصلاح کے پہلوں کی ضرورت ہو وہا ں ساتھ ساتھ اصلاح بھی کرتی جایں۔دوستی ہی دوستی میں ہر بگاڑ کی اسی وقت اصلاح کی جاے۔آجکل مایں اپنی سرگرمیوں میں اس قدر مصروف ہوتی ہیں کہ اولاد کے دل کی بات سننے ان کے معصوم ذہن میں امڈتے سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں دیے جاتیجن کی وجہ سے ان کی شخصیت ادھوری تشنہ رہ جاتی ہے۔دعا وہ بھی ماں کی رد نہیں ہوا کرتی ماؤں کو چاھیے اپنی اولاد کے لیے دعاوں میں لگی رہیں دعا مومن کا ہتھیار ہے جو مومن کو ہی تحفتا ودیعت کیا گیا ہے۔اللہ رب العزت ہمیں اپنی اولاد کے لیے اچھا نمونہ بننے کی تو فیق عطا فرماے۔آمین۔
تحریر : قراة العین