تحریر : محمد اسلم مانی
“اردو کی نثری داستانیں” اور” داستانوں کی تکنیک “کے مصنف گیان چند جین (اترپردیش اردو ادکامی لکھنو)کے مطابق داستان کے لغوی ” معنی قصہ ، کہانی اور افسانہ “کے ہیں،خواہ وہ منظوم ہو یا منثور جس کا تعلق زمانہ گذشتہ سے ضرور ہو اورجس میں فطری اور حقیقی زندگی بھی ہوسکتی ہے ، اس کے علاوہ غیر فطری اکتسابی اورفوق العادت شاذ و نادر فو ق العجائب بھی ہو سکتی ہے۔قصہ، کہانیوں کا شوق انسانی فطرت میں شامل ہے۔ جیسے جیسے انسانی تہذیب و تمدن ارتقائی کے مدارج طے کرتی گئی ویسے ویسے یہ شوق بھی پروان چڑھتا گیا۔داستان گوئی کی روایت قدیم ہندوستان میں بے حد مقبول تھی۔اس کے علاوہ الجیریا ، بوسینا اور انڈونیشا جیسے ممالک میں داستان گوئی تہذیب کا اہم حصہ تھی۔ جہاں تک داستا نوں ، قصص اور کہانیوں کا تعلق ہے ان کو ادب کی مایہ ناز اور قدیمی قسم میں شما رکیا جاتا ہے بلکہ اگر کہا جا ئے تو بے جانہ ہو گاکہ آغاز انسانیت سے ہی اس پر توجہ دی گئیاس کے ذریعے انسانی ذہن کو بڑی حسن وخوبی اور احسن انداز کے ساتھ تبد ل کیا جا سکتا ہے ۔”آ ج کے بچے کل کے بڑے ہوتے ہیں ،اس لئے زندہ اور باشعور قومیں اپنے نونہالوں کی تربیت کا آغاز ان کے بچپن سے کر دیتی ہیں”یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بچوں کو فطر ی طور پرکہانیاں سننے اور کہانیاںپڑھنے کا بہت شو ق ہوتاہے
اس لئے کہانیاں بچوں کی سیرت و کردار کی تعمیر میں اہم کردارادا کرتی ہیں۔دنیامیں آنکھ کھولنے والے بچے کیلئے ہر چیزبالکل نئی ہوتی ہے،اردگرد موجود ہر چیز اس کے کورے ذہن کو آگاہی فراہم کر رہی ہوتی ہے۔مثلاً کیا چیز ٹھنڈی ہے اور کیا گرم،کیا چیز بے ضرر اور کیا خطرناک۔اس طرح کی بہت سی چیزیں تو وہ اپنے تجربے سے پرکھ اور برت کر حاصل کرلیتا ہے ، لیکن اچھے برے اور صیحح غلط کی تربیت میں سکھانے کے لئے نصیحتوں سے زیادہ اہم کردارمختلف داستانوں، قصوں اور کہانیوں کا ہے۔داستان گوئی زبانی ابلاغ کی سب سے قدیم ترین اقسام میں سے ایک ہے اور خا ص طور پر چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت میں ایک بہت ہی اہم کردار ادا کر تا ہے۔جونانی ، دادی یا دیگر گھر کی خواتین بچوں کو کہانیاں سناتی ہیں ،بچپن میں سنائی جانے والی کہانیوں سے ان زبان و بیان کی تربیت اور تخیلاتی قوت بہت تیز اور فعال ہو جا تی ہے۔ان کہانیوں میں انہیں کچھ معلومات اور سبق ملنے کے ساتھ ساتھ غوروفکراورتوجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو بھی خاطر خواہ فائدہ پہنچتا ہے۔بچوں کو کہانیاں سنانے کا سلسلہ تربیت کا وہ باقاعدہ او غیر نصانی طریقہ ہے جو انسانی فطر ت اور جذباتی میلانا ت سے قریب تر ہے۔یہ سلسلہ اسوقت شروع ہوجاتا ہے جب ایک بچہ ہماری بات سن کر سمجھنے لگتا ہے پھر اپنے عمل ، اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان اور اشاروں سے اس کا جواب دیتا ہے۔
ایسے میں اسے سکھانے اور سمجھانے کا یہ نہایت دلچسپ اورمفید سلسلہ اس کے چشم تصور سے اسے ایسی دنیا کی سیرکرارہا ہوتا ہے ،جہاں وہ اپنی بہترین توجہ کے ساتھ بہت سی نئی چیزوں اور نئی باتوں کوسمجھ رہا ہوتا ہے۔شاہنواز فاروقی نے بچوں کی تعلیم وتربیت میں قصہ کہانی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ” بچوں کو مطالعہ کرنے والا کیسے بنایا جائے” سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ” جب بچے 5,4 سال کی عمر کے ہوجاتے ہیں تو یہ کثیر تعدا د میں الفاظ کو صحیح تلفظ میں ادا کر نے کے ساتھ سمجھ بھی رہے ہوتے ہیں تو لہٰذا اس عمر میں، گھر والوں کو چاہیے کہ بچوں کیلئے کہانیوں کی دنیا کا در کھو ل دینا چاہیے ۔بظاہر کہانی پڑھنے اور سننے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ، لیکن ایسا نہیں ہے ۔کہانی پڑھنے اور سننے کے اثرات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔کہانی سننے کے عمل میں کہانی سنانے والے کی شخصیت سے منسلک ہو جاتی ہے اور اس میں ایک” انسانی عنصر ” در آتا ہے جو کہانی کو حقیقی بنانے میں اہم کردار ادا کر تا ہے۔کہانی کو سماعت کرنے کاایک فائدہ یہ ہے کہ کہانی سنتے ہوئے سامع کا تخیل پور ی طر ح آزاد ہوتاہے اور وہ کہانی کے ساتھ سفر کر تا ہے۔
کہانی سنانے والے کی آواز کا اتار چڑھائو کہانی میں ڈرامائیت پیدا کردیتا ہے، جس سے کہانی کی تاثیربڑھ جاتی ہے۔عام طور پر کہانی سنانے والا کہانی سناتے ہوئے ہاتھوں کی مخصوص حرکت اور چہرے کے تاثرات کو بھی کہانی کا حصہ بنا دیتا ہے۔ جس سے ایک جانب کہانی کی فضا اور ماحول پیدا ہو تا ہے اور دوسری جانب کہانی کو برجستگی کا لمس فراہم ہوتا ہے۔کہانی پڑھنے کے اپنے فوائد ہیں مگر کہانی کی سماعت کا اپنا لطف اور اثر ہے اور بچپن میں کہانی کی سماعت ، کہانی کے پڑھنے سے زیادہ اہم ہے۔شاہنواز فاروقی یہ بھی لکھتے ہیں کہ بچپن میں یہ بات کبھی ہماری سمجھ نہیں آتی تھی کہ ” کہانی سنانے والے رات ہی کو کہانی کیوں سناتے ہیں اور دن کو کہانی کیوں نہیں سناتے ؟بلکہ ہم ان سے دن میں کہانی سننے کی ضد کرتے تھے تووہ مسکراتے تھے اور کہتے تھے دن کو کہانی نہیں سنتے ورنہ ماموں راستہ بھول جاتے ہیں اور ہم ماموں کو راستے پر گم ہونے سے بچانے کیلئے کہانی سننے کی ضد ترک کردیتے تھے۔لیکن اب اس عمرمیں تھوڑا بہت پڑھنے اور غورکرنے سے معلوم ہوا ہے کہ کہانی اور رات کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دن میں کہانی کا اثر گھٹ کر آدھے سے بھی کم رہ جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ رات اسرار کا سمندر ہے اور رات کا لمس عام کہانی کو بھی پُر اسرار بنادیتا ہے۔
تجزیہ کیاجائے تو رات کی کہانی میں جہاں پیدا کرتی ہے وہیں دوسری جانب وہ کہانی میں وہی کردار ادا کر تی ہے جو فلم یا ٹیلی ڈرامے میں سیٹ اور vertical Dimension عمودی جہت یا روشنیاں پیداکر تی ہیں۔یہاں کہنے کو اصل بات یہ ہے کہ ” کہانی کی سماعت بچوں کو مطالعے پر مائل نہیں ” مجبور” کردیتی ہیں”بچوں کے کہانیاں سنانے سے محرومی کے حوالے سے شعبہ نفسیات ،جامعہ کراچی کے پروفیسر حیدر عباس رضوی کا کہنا ہے کہ اب کچھ تعلیمی اداروں پر چھوڑ دیا جاتا ہے،جس سے بچوں کی تربیت میں بہت زیادہ کمی دیکھی جارہی ہے۔پہلے دادا ، دادی اور نانا ، نانی یا ماں کی طرف سے بچوں کو کہانی سنانے کا سلسلہ رہتا تھا۔ان کہانیوں کے ذریعے سیکھنے سکھانے کے ساتھ ساتھ ہماری ہماری ثقافت اور روایات بھی اجاگر ہوتی تھیں۔ اب ہمارے پاس اپنے بچوں کو بہلانے کے لئے وقت نہیں ،بچہ اگر ضد کر رہا ہے تو اسے کھلونے دلوا کر گویا جان چھڑالیں گے ، جب کہ پہلے بچوں کو وقت دیتے تھے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے کھیل کھیلتے جیسے لوڈو ہوگئی ، جس سے بچے کے اندر ہار تسلیم کرنے اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہوتی تھی ، یہ اس کی تربیت کا موثر طریقہ تھا ۔اب نام نہاد مصروفیات اور والدین کی ملازمتوںنے بچوں کو اس چیز سے محروم کر دیا ہے ۔نتیجتاً بچے خود ہی اپنے تفریح کے ذرائع ڈھونڈتے ہیں ، جس سے ان کی شخصیت میں ٹھہرائو اور سکون ختم ہوگیا ہے ، ان میں تشدد اور عدم برداشت کا عنصر بڑ ھ رہا ہے۔
نفسیاتی امور پر گہر ی نظر رکھنے والے ” ابن مستقیم “کے مطابق ٹی وی دیکھتے لمحے بچے کی قوت متخیلہ کام نہیں کرتی ، جب کہ کہانی کے ذریعے بچے کی تخیلاتی قوت بہت تیز ہو تی ہے،کتاب پڑھتے ہوئے وہ کتاب کے ذریعے اپنے شعور میں کسی چیز کو محسو س کر رہا ہوتا ہے۔بچپن میں کہانی سننے کے دوران ذہن بالکل نازک اور صاف ہوتا ہے اور ابھی پڑھ کر سمجھنے کی قوت پروان نہیں چڑھی ہوتی ۔ ایسے میں سن کر کسی چیز کو محسو س کرنے کا تجربہ نہایت پُر اثر ثابت ہو تا ہے۔ ” کوئی بھی بچہ کسی بات کو سن کر فوراً اپنے تصور کی مدد سے اسے محسو س کر تا اور اپنے ذہن میں اس الفاظ یا چیز کی کوئی نہ کوئی شبیہ بنا لیتا ہے ، کیونکہ اس کسی بھی فرد، چیز یا جگہ کی کوئی تصویر یا خاکہ نہیں دکھایا جارہا ہوتا سب کچھ الفاظ کے ذریعے بتایا جاتاہے ” لہٰذا مطالعے کے قابل ہونے سے پہلے کہانی سننے کا سلسلہ اس ضمن میںخاصا کار آمدثابت ہوتا ہے۔
ممتاز صحافی مبشر علی زیدی اپنی ” کتاب نمک پارے” کے انتساب میں اپنی امی سے بچپن میں سنی جانے والی کہانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ، ان کے کرادر کے حوالے سے بتاتے ہیں ،جس عہد کم سنی میں جانے والی کہانیوں کے بچوں پر اثرات کا بڑا واضح پہلو سامناآتاہے۔ ” میر ی امی مجھے سلانے کے لئے کہانیاں سناتی تھیں۔وہ کہانی شروع کر تیں اور اسے ختم کرنے سے پہلے سو جاتیں ۔مَیں رات بھر جاگتارہتا ، کہانی سوچتا رہتا،کردار مجھ سے باتیں کرتے رہتے، مَیں آج جو کچھ بھی ہوں سچ مچ اپنی ماں کی وجہ سے ہوں “اب تو اسکولوں میں بھی کہانیاں کا رجحان بھی ختم ہوگیا ہے پہلے تو یہ تھا کہ پرائمری کلاسوں کے نصاب میںشامل داستانوں اور کہانیوں کے علاوہ ایک اہم روایت اسکولوں اساتذہ کی جانب سے کہانی سنانے کی رہی ہے ،” جس کا مقصد تدریس کے ماحول کو طلبہ کے لئے دلچسپ بنانا اور انہیں ایک مبثت چیز کی طر ف مائل کرنا ہوتا”بالخصوص جب کسی استادکی غیر حاضر ی یا کسی اور وجہ سے پریڈ فارغ ہوتا یا طلباکے پاس کچھ فرصت ہوتی تو وہ خود بھی کہانی سننے کی فرمائش کر دیتے تھے اس طر ح گھر وں کے ساتھ اسکولوں میں کہانی سنانے کی روایت پروان چڑھتی رہتی تھی۔ آج کے بچوں کو نہایت کم سنِی میں اسکول بھیج دیا جا تا ہے ، جہاں اگرچہ اسے کھیل ہی کھیل میں پڑھایا جاتا ہے
لیکن داستان گوئی کی روایت موجود نہیں ہے۔جس کی وجہ سے سیکھنے کے عمل کو تیز کرنے والی روایت دم توڑ رہی ہے۔موجودہ دور میںبچوں کو کہانی سنانے کی روایت کو زندہ کرنے کے لئے “ٹافی ٹی وی” کی جانب سے وقتاً فوقتاً شہر کے مختلف مقامات پر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں ، جہاںچھوٹے چھوٹے بچوں کو کہانیاں سنانے کا اہتما م کیا جا تا ہے۔ ایک ایسے ماحول میںجہاں اسکولوں میں قومی زبان بولنے پر جرمانہ ہو اور گھروں میں بھی انگریز ی زبان رائج ہو وہاں ان کہانیوں کے پروگراموں میں اردو کو خصوصیت کے ساتھ اختیار کرنا اسے اور بھی اہم بنادیتا ہے۔اس سلسلے کو آج کے دور میں بچوں کی تربیت سے جڑے اس سلسلے کے احیا کی ایک اہم کوشش قرار دیاجاسکتا ہے، “جس کا مقصدآج کل کے بچوںمیں کہانی سننے کا شوق پیدا کرنا اور والدین کو اس طرف مائل کرنا ہے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالیں اور گھروں میں اس خوبصورت روایت کو زندہ کرکے اپنے بچوں کو پھر سے کہانیاں سنانا شروع کریں”
آج کل ہمارے یہاں بچے کہانی سن کر سونے کی بجائے ٹی وی دیکھتے ہوئے سوتے ہیں یا پھر ایک ڈیڑھ سال کی بچہ بھی موبائل سے کھیلتے ہوئے سونا چاہتا ہے۔چھوٹے بچے نرم شاخو ں کی مانند ہوتے ہیں ، انہیں جس جانب موڑا جائے گا ، یہ مر جائیں گے۔بچوں کی ابتدائی عمر میں اگر والدیں انہیں ٹی وی، کمپیوٹر اور ویڈیو گیم سے تھوڑا پرے کرتے ہوئے کہانیوں کی جانب راغب کریں اور کوشش کرکے تھوڑا وقت نکال کرانہیں کہانی سننے کی عادت ڈالیں تو کوئی وجہ نہیں بچے اس جانب راغب نہ ہوں ۔ اس کے بعد جو ں جوں وہ بڑے ہوتے جائیں گے ،وہ خود بھی مطالعے کی طرف راغب ہوں گے اور” آپ کی آج دی گئی تھوڑی سی توجہ یقیناآپ کے بچے کے کل کو بہتر بنا دے گی”
تحریر : محمد اسلم مانی
maslamly79@yahoo.com
0331-7169343