تحریر: حسیب اعجاز عاشرؔ
گزشتہ دنوں اخبارمیں شائع ہونے والی ایک خبر پڑھ کر آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔ کہ ایک خاتون نے پولیو کے قطرے پلانے کے بہانے سے فیصل آباد کے ایک پرائیویٹ کلینک سے نومولود بچی کو اغوا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ زیرِحراست خاتون نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بے اولاد ہے اور ماں بننے کی حسرت نے اسے اس حرکت پر مجبور کر دیا۔آہ۔۔۔۔مگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑایں تو کوئی زیادہ بیٹیاں ہونے پر پریشان ہے اورکوئی بیٹوں کی کثرت سے ناخوش۔۔اِن کم علموں، ناشکروں کو اندازہ ہی نہیں کہ اولادبیٹیوں کے روپ میں ہویا بیٹوں کی اللہ تعالی کی عطا کردہ بہت بڑی اور گرانقدر نعمتیں ہے۔اِس نعمت کی قدر اِس خاتوں سے پوچھیئے جسکی خالی گود نے اُسے فیصل آباد کی سڑکوں پر ذلیل و خوار کر دیا۔ اُس مرد سے پوچھیئے جو دن بھر کا تھکا ہارا شام کو گھر لوٹتا ہے تو نہ کوئی بیٹا اُسکی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ جانے کو، نہ کوئی بیٹی گود میں لپک جانے کو دروازے پر منتظر ملتے ہیں۔
اگر ہم اپنے وجود ،اس دھرتی،بلکہ کائنات میں موجود ذرے ذرے پر تفکر کریں تو اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کوہم کسی صورت بھی شمار کر ہی نہیں سکتے مگر اولاد ہر نعمت سے بڑھ کر تصور کیا جاتی ہے۔بیٹی کے روپ میں ہو تو رحمت ،بیٹے کی روپ میں ہو تو برکت۔۔اور نیک اولا د کے مقابل تو تمام اثاثے بے حثیت اور صفر ہیں۔ہمیں اِس نعمت کی انتہائی قدر کرنی چاہیے کسی شخص نے بزرگ سے پوچھا: میں باپ بننے پر بے حدخوش ہوں ،بھرپوراظہار تشکرکیسے ممکن ہے ؟جواب ملا ’’اُولاد کی اچھی تربیت‘‘، قدر کیسے ممکن ہے ؟جواب ملا ’اُولاد کی اچھی تربیت‘‘،اِن سے حد درجہ محبت کیسے ممکن ہے؟
جواب ملا’اُولاد کی اچھی تربیت‘‘،تواُولاد کی اچھی تربیت کیسے ممکن ہے؟جواب ملا’’قرآن و حدیثﷺ‘‘۔ہر مومن رب جلیل سے نیک اولاد کی التجا کرتا ہے حتی کہ انبیاء کرام بھی نیک اولاد کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے۔جیسا کہ قرآن (ال عمران ۳۸)میں ہے۔۔۔’’پروردگار! مجھے اپنے پاس سے نیک اولاد عطا فرما! بے شک تو دعائیں سننے والا ہے‘‘۔جبکہ سورۃ فرقان(۷۳) میں ہے کہ اور وہ لوگ جو دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کو پیشوا بنا!۔۔اولاد کی قدر کرنی ہے تو اِس کی اچھی تریبت کرنا ہو گی۔یہ وہ انمول وحقیقی اثاثہ ہے جو بعد از مرگ بھی فائدہ و منافع کا موجب بن سکتی ہے،مگر یہ منحصر ہے والدین کی تربیت پر ۔۔جیسا کہ قرآن میں ہے ’’اور جان لو کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش کی چیز ہیں اور اس بات کو بھی جان لو کہ اللہ کے پاس نیکیوں کا بہت بڑا ثواب ہے۔
(انفال:۲۸)‘‘۔’’اور جو اعمال وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو نشانات پیچھے چھوڑ گئے سب کو ہم لکھتے ہیں ۔(یسین ۱۰)‘‘۔مسلم کی حدیثﷺ ہے کہ ’’جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین کاموں کے کہ انکا سلسلہ جاری رہتا ہے۔۱،صدقہ جاریہ۔ ۲،وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ۳، صالح اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے ‘‘۔۔۔ایک اور حدیثﷺ میں ہے کہ ’’جنت میں آدمی کا درجہ بڑھا دیا جاتا ہے وہ کہتا ہے میرے حق میں یہ کس طرح ہوا؟اس لئے کہ تمہارا بیٹا تمہارے لئے مغفرت طلب کرتا ہے اور اگر تمہارے والد نے توحید کا اقرار کیا اور ان کی زبان بند ہو گئی پھر تم نے ان کی طرف سے صدقہ اور خیرات کیا تو اس سے ان کو نفع ہو گا (مستدرک،حاکم)‘‘بچوں کی صیح پرورش کے لئے سب سے اہم کردار ماں کا ہے۔۔۔۔۔ ایک قصہ یاد آگیا ،ابوظہبی میں مقیم ایک دوست کے بیٹے عبداللہ نے اپنے ہم عمر دوست ابن نیاز کے ہمراہ قاری سے قرآن ناظرہ کا آغاز کیا،عبداللہ نے عرصہ قلیل میں قرآن ختم کر لیا ۔جبکہ ابن نیاز چند سپارے ہی مکمل کر پایا۔
ابن نیاز کے والدین نے قاری سے شکوہ کیا کہ ہمارا بیٹا اپنے دوست سے کیوں پیچھے رہ گیا؟۔وضاحتی جواب ملا کہ کیا آپ جانتے ہیں ،کہ عبداللہ کی تعلیم و تربیت قبل از پیدائش ہی شروع ہو چکی تھی؟ ماں کی کوک میں تھا جب اس کے والدین مجھ سے تفسیرِ قرآن پڑھا کرتے تھے ۔تووہ نور جو انکی روحوں میں رچ بس رہا تھا کیونکر اُن کی اولاد کو بھی اپنے حصار میں نہ لیتا ۔سبحان اللہ۔۔
ماں کی میٹھی گود اولاد کے لئے پہلا مسکن اور پہلی درس گاہ ہے ۔ باپ بھی اپنے فرائض سے کسی صورت سبکدوش نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں کہ ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو دوزخ کے آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے، جس پر تند خوسخت مزاج فرشتے مقرر ہیں اللہ نے ان کو جو حکم دیا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں (تحریم۔۶)‘‘ بہترین تربیت سے اولاد کو نیک بنانا والدین کی ایک اولین فرائض اور اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے،تا کہ اُولاد آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سکون کاباعث بنے۔بخاری ؒ شریف کی ایک حدیثِ نبویﷺ کے مطابق ’’ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اسکے والدین یا تو اسے آتش پرست بنا لیتے ہیں یا یہودی ، یانصرانی بنا دیتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ اپنی اولادکی ابدی زندگی میں کامیابی کے لئے بہترین تربیت کی جائے جسکے لئے پہلے ۲ سال بہت اہم ہیں۔۔۔ جو کہا جائے گا جو کیا جائے گا بچہ کے ذہن میں پختہ ہوتا رہتا ہے ۔ویب سائیٹ پے شائع ایک ماہرین نفسیات کی رپورٹ کے مطابق، ابتدائی دو سال ذہن کی نشوونما کے لئے انتہائی اہم ہے، ان دوسالوں میں بچوں میں پچاس فیصد ذہانت تشکیل پا جاتی ہے اور ۸ سال کی عمر تک پہنچنے تک تقریباً اسی فیصد ذہن نشوونما مکمل ہوجاتی ہے ۔ بہترین تربیت کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ انہیں نماز کی جانب راغب کیا جائے ۔حدیث ﷺکے مطابق ۔۔۔جب بچہ کی عمر سات سال کی ہو جائے تو اسے نماز کا حکم دو، پھر جب وہ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اسے سزا دو اس کا بستر علیحدہ کر دو (ابوداؤد، حاکم، مستدرک)۔دعائے ابراھیمی ہے کہ ’’یا اللہ مجھے نماز کا پابند بنا دے اور میری اولاد کو بھی ،اے اللہ میر ی دعا قبول فرما(ابراھیم ۴۰)‘‘۔صرف نماز کا پابند نہیں،بلکہ اہتمام کے ساتھ نماز کی پابندی کا عادی بنایا جائے۔۔یعنی وضو کے لئے تمام احکامات ،اول وقت کا خیال، خشوع خضوع اوراسلامی و جائز دعاؤں کا خیال رکھا جائے ۔ایسا کرنے سے خوفِ خدا، پاکیزگی ،وقت کی قدر، اسلامی قدروں کا احترام،عاجزی و انکساری،قرآن کی تلاوت کا شوق،دین سے لگاؤاور حقوق و فرائض سے آگہی پیدا ہوگی۔
اپنے قول و عمل سے اولاد کو سچ بولنے کی تربیت کی جائے اور جھوٹ سے ہر صورت دور رکھا جائے ۔۔حضرت عبداللہ بن عامر سے روایت ہے، فرمائے ہیں کہ ایک روز حضور ﷺ ہمارے گھر تشریف فرما تھے۔اتنے میں میری والدہ نے مجھے بلا کر کہا، آ میں تجھے ایک چیز دیتی ہوں! حضورﷺ نے میری والدہ سے فرمایا’’تم اسے کیا چیز دینا چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا میں اسے ایک چھوہارہ دیتی ہوں! آپ نے فرمایا اگر اب تم اسے کچھ نہ دو گی، تو تمہارے خلاف ایک جھوٹ لکھ دیا جائیگا(ابوداؤد) ۔ہمارے معاشرے میں معمولی وجوہات اور ہر عام مواقع پر دانستہ و نادانستہ جھوٹ بول دیا،یا بلوا دیا جاتا ہے اُوربغیر احساس کے،کہ اولاد پر بہت برُا اثر پڑے گا ۔ جیسے کہ جس سے بات نہ کرنی ہو یابوجہ تھکاوٹ ملنے کو جی نہ چاہے تو فون آنے یا گھر پر دستک ہونے پر اولاد کے ذریعے یہ کہلوا دیا جاتا ہے کہ باپ گھر پر نہیں۔یہ عادت آہستہ آہستہ بچے میں بھی پروان چڑھتی رہتی ہے ۔ جس سے پرہیز بہت ضروری ہے۔ کیونکہ جھوٹ تو فتنا،فساد کا سبب بنتا ہے ، دل مردہ کر دیتاہے اور یہ بے حسی چغلی، غیبت ،حقائق سے نظریں چرانا، سنی سنائی باتوں کو پھیلا دینے والیں سنگین بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔جس سے دنیا تو خراب ہوتی ہی ہے اور آخرت بھی برباد ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
اسی طرح اولاد کو بچپن ہی سے کام کی عادت ڈالی جائے ۔جس سے بچہ میں احساس ذمہ داری بڑھتی ہے اور چھوٹے سے شفقت اور بڑوں کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ،لڑکیاں ہو تو سسرال میں سب کی آنکھوں کا تارا بنے گی اور لڑکا ہو تو والدین کے بڑھاپے کا حقیقی سہارا بنے گا۔ادب سیکھانے کے حوالے سے ترمذی کی حدیثﷺ ہے کہ ’’انسان کا اپنے بیٹے کو ادب سکھاناایک صاح صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔مقولہ ہے ۔ جو اپنی اولاد کو ادب سکھاتا ہے وہ دشمن کو ذلیل و خوار کرتا ہے۔۔اپنی اولاد میں مساوات رکھی جائے۔ؓبخاری شریف کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کے درمیان انصاف قائم کرو۔۔۔ ’’حضرت انس سے نقل ہے کہ ایک صاحب حضورﷺکی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔اتنے میں ان کا ایک لڑکا آیا،انہوں نے اس کا بوسہ لیا اور اپنے زانو پر بٹھالیا۔پھر ان کی بیٹی آئی، انہوں نے اس کو سامنے بٹھا لیا، حضورﷺ نے فرمایا تم نے دونوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا‘‘۔ایسا کرنے سے کسی کے بگڑنے کے اور کسی میں احساس کمتری کے پیدا ہو جانے کے خدشات موجود رہتے ہیں۔۔
اپنی اولاد کو اچھی اور دینی تعلیمات سے ضرور آراستہ کیا جائے جبکہ اولاد پر ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں کمپیوٹر اور موبائل کے استعمال بارے کڑی نظر بھی رکھی جائے ۔بے جا مار پیٹ سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈانٹ ڈپٹ اولاد کو ضدی بنا دیتی ہے۔بے جا روک ٹوک صلاحیتوں کو اُبھرنے نہیں دیتے۔ ،ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے غصے کو قابو میں رکھ کر بات نرم سے نرم لہجے اور پیار و شفقت سے ہی سمجھائی جائے ۔اُنکی صلاحیتوں اور مزاج کا خیال رکھناچاہیے۔جبکہ ہر مناسب و غیر مناسب فرمائشوں کو من و عن مان لینے سے لالچ و خواہشات کی حوس کو ہوا ملتی ہے،والدین کی دعاؤں سے اولاد کے دو جہانوں کی کامیابیاں وابستہ ہیں اس لئے والدین انجانے میں بھی اپنی اولاد کو بد دعا نہ دیں۔
اولاد کی تربیت کے لئے رہنمااصولوں کے لئے۔۔۔۔ ایک روایت کے مطابق امام جعفر صادق ؒ فرماتے ہیں کہ اُنکے والد محترم امام باقرؒ نے انہیں پانچ قسم کے لوگوں، جھوٹے ،بخیل،فاجر و فاسق ،بے وقوف اور قطع رحمی کرنے والے سے دوستی کرنے سے منع فرمایا ۔اسی طرح اولاد کی تربیت بارے شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ ،بچے کی عمر ۱۰ سال سے زیادہ ہو جائے تو اسے نا محرموں اور ایروں غیروں میں نہ بیٹھنے دو،زیادہ لاڈ پیار نہ کرو،استاد کا ادب سکھاؤ،استاد کی سختی سہنے کی عادت ڈالو،بچے کی تمام ضروریات خود پوری کرو اور عمدہ طریقے پر کرو کہ وہ دوسروں کی طرف نہ دیکھے،شروع میں پڑھاتے وقت بچے کی تعریف کرو، حوصلہ افزائی کرو، شاباش دو، جب وہ اس طرف راغب ہو جائے تو اسے اچھے اور برے کی تمیز سکھاؤ، اورضرورت کے وقت سختی بھی کرو،کوئی ہنر بھی سکھاؤ تا کہ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے،کڑی نظر رکھو تا کہ بری صحبت میں نہ بیٹھے،اچھے اخلاق کی تعلیم دو۔ایک روایت کے مطابق حضرت لقمانؒ نے بیٹے کو نصیحت کی کہ نماز کے وقت اپنے دل کو قابو میں رکھو، دستر خوان پر اپنے ہاتھ کو قابو میں رکھو، کسی کے گھر میں جا کر اپنی آنکھوں کو قابو میں رکھو، کسی محفل میں بیٹھو تو اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اللہ اور موت کو ہمیشہ یاد رکھو اور اپنی نیکیاں اور دوسروں کو برائیاں بھلا دو۔۔
مختصراً یہ کہ ۔اگر ہم اپنی اولادوں کی ذہن سازی صرف و صرف توحید کی بنیادوں پرکریں اور ان میں ،نماز کا اہتمام کرنے،قرآن کی تلاوت کرنے۔حقوق اللہ،حقوق العباد، حقوق والدین کا خیال رکھنے۔
ہمسائیوں سے محبت کرنے۔فراغت کے لمحات میں سیرت النبی ﷺ اور حیات الصحابہ کو مطالعہ کرنے۔ادب کو ملحوظِ خاطر رکھنے۔آداب کا خیال رکھنے۔ سلام میں پہل کرنے۔ ملنے پر الحمداللہ کہنے۔ناملنے پر صبر کرنے۔کسی کے شکرگزار ہونے پر جزاک اللہ کہنے۔گناہ سے بچنے کے لئے استغفر اللہ کہنے۔ارادے کے اظہار پر انشاء اللہ تعالی کہنے۔کسی کی خوشیوں میں خوش ہونے اور غم میں غمگین ہونے۔کوتاہی پے معافی مانگنے۔کسی کو بُرے کلمات سے نہ پکارنے۔ہر بات اور واقع سے مثبت پہلو تلاش کرنے،بدگمانی سے دامن بچانے۔وعدہ کی پاسداری کرنے۔بحث ومباحثہ سے پرہیز کرنے۔جھوٹ سے بچنے۔۔لہجہ دھیما اور آہستہ آواز رکھنے۔قہقوں سے پرہیز کرنے۔ چغلی و غیبت نہ کرنے۔زبان و نظر پے قابو رکھنے۔بیٹیوں کے پردے کا اہتمام کرنے کی عادات کو پختہ کیا جائے۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔اگر خود کاعملی نمونہ پیش کیا جائے تو بے شک حکمِ خداوندی سے آج بھی مومن ماؤں کے پاکیزہ بطن سے عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے عاجز متقی عادل حکمران۔امام شافعیؒ اور امام ابوحنیفہ ؒ جیسے سفیرانِ حرم۔علی ہجویری ؒ اور نظام الدین اولیاؒ جیسے عظیم مبلغ اسلام۔رابعہ بصری ؒ جیسی پاک دامن پارسا خاتون۔جنید بغدادیؒ جیسے باکمال منصف۔ محمد بن قاسم جیسے مجاہد اسلام۔مجدد الف ثانی ؒ جیسے انقلابی داعیِ اسلام۔نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبیؒ جیسے دلیرسپاسالارو مقبول ترین فاتحین۔ عبدالقادر جیلانیؒ ، بہاؤ الدین زکریا،حضرت مالک ا بن دینار اور حضرت عبداللہ ابن مبارک جیسے محافظِ اسلام و اولیاء کرام پیدا ضرور ہونگے۔آمین
تحریر: حسیب اعجاز عاشرؔ، دبئی، متحدہ عرب امارات