counter easy hit

بچوں کا اغواء اور عوام کی بڑھتی ہوئی عدم برداشت

Children Kidnapping

Children Kidnapping

تحریر : محمد عرفان چودھری
پچھلے تقریباََ چھ ماہ میں بچوں کی بڑھتی ہوئی اغواء کی وارداتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کا ابھی تک کوئی سد باب نہیں کیا جا سکا اس اس سلسلے میں اگر قانونی اداروں کی بات کی جائے تو متضاد رائے سامنے آتی ہے ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف کے مطابق 2015 ء سے لے کر اب تک صرف 1134 بچوں کے اغواء یا گمشدگی کی رپورٹ سامنے آئی ہے جن میں سے 929 بچے خود ہی واپس آ گئے ہیں جبکہ 164 بچوں کو بازیاب کروایا گیا ہے اور صرف 4 بچے ابھی تک لا پتہ ہیں ان تمام بچوں کی گمشدگی میں 90 فیصد کیسز میں والدین کا ہاتھ ہوتا ہے جو کہ گھریلو تشدد اور چپقلشوں کی وجہ سے گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔

اس سے پہلے پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی جناب ندیم نواز نے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی تھی جس کے مطابق 6973 بچے پچھلے چھ سالوں کے درمیان پنجاب کے مختلف حصوں سے اغواء کئے گئے جن میں سے اب تک 6654 بچوں کو بازیاب کرا لیا گیا ہے، حالیہ پولیس رپورٹ کے مطابق 2015 اور2016 کے درمیان 1808 بچے اغواء کئے گئے جن میں سے 1715 کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ 93 بچوں کے اغواء کا پتہ لگایا جا رہا ہے مزید رپورٹ کے مطابق 2016 ء کے پہلے سات ماہ میں اغواء کے 767 کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 715مغوی بچوں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے اور اور باقی 52 بچوں کے کیس پر تاحال تفتیش جاری ہے ڈی آئی جی کے مطابق ابھی تک تمام کیسوں میں کوئی ایک جیسے محرکات نظر نہیں آئے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یہ کسی منظم گروہ کا کام ہے اس سلسلے میں آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا صاحب کی جانب سے تمام آر پی او، اور ڈی پی او کو سختی سے تلقین کی گئی ہے کہ وہ ہر ایس ایچ او کو پابند کرے کہ اغواء کی واردات پر فوراََ ایف آئی آر درج کی جائے۔

میڈیا لیول پر آگاہی مہم شروع کی جائے جن میں والدین پر بچوں کی حفاظت کے لئے زور دیا جائے بچوں کے پے در پے اغواء پر جسٹس ثاقب نثار نے سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے پنجاب پولیس کو خصوصی احکامات دیے ہیں کہ اغواء کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر فوراََ قابو پایا جائے۔ قارئین کرام یہ تو تھے چند حقائق جو کہ منظر عام پر آئے اور میڈیا کی بدولت اعلیٰ حکام نے نوٹس لیا مگر اس کے بر عکس اغواء کی کئی ایسی وارداتیں ہیں جو کہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں اور نہ ہی کوئی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی گئی حال ہی میں پنجاب میں 600 بچے اغواء کیے گئے جس میں سے 300 سے زائد کو لاہور سے اغواء کیا گیاجن میں سے زیادہ تر بادامی باغ، کینٹ اور گردو نواح کے علاقے شامل ہیں پہلے بچوں کے اغواء کے پیچھے خاندانی رنجشیں یا تاوان کی وصولی جیسے عوامل کار فرما ہوتے تھے مگر اب یہ ایک منظم گروہ کے ذریعے ہو رہا ہے جس کی پولیس بار ہا تر دید کر چکی ہے کہ یہ منظم گروہ کا کام نہیں ہے اگر یہ منظم گروہ کا کام نہیں ہے تو پولیس بتائے کہ یہ پھر کس کا کام ہے۔

Kidnappers

Kidnappers

حالیہ کچھ دنوں میں عوام نے بڑی تعداد میں اغواء کاروں کو اپنی مدد آپ کے تحت پکڑکر پولیس کے حوالے کیا مگر پولیس کی جانب سے اُن اغواء کاروں کے ارادوں اور اُن کے گروہ کے متعلق ابھی تک کوئی انکشاف کیوں نہیں کیا گیا؟ کیوں ابھی تک پولیس نے چُپ سادھ رکھی ہے؟ کیا اس کو حکومتی ناکامی تصور کیا جائے؟ بعض کیسوں میں تو پولیس والوں نے اغواء کاروں کو بے گناہ ثابت کر کے چھوڑ بھی دیا جس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ کہیں یہ سب پولیس والوں کی ملی بھگت سے تو نہیں ہو رہا۔

یہ وہ سوال ہیں جو اس وقت ہر شخص کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگوں نے پولیس رویوں اور پولیس کارکردگی سے مایوس ہو کر خود ہی سڑکوں پر فیصلے کرنے شروع کر دیئے ہیں جس کسی پر بھی عوام کو ذرا سا اغواء کار ہونے کا شُبہ ہوتا ہے اُس کو موقع پر ڈھر لیا جاتا ہے اور وہیں خوب دُرگت بنائی جاتی جیسا کہ حال ہی میں لاہور کے علاقے ملک پارک بلال گنج میں ایک واقع پیش آیا جس میں تین لوگ ایک تین سالہ بچی کو اغواء کرنے کی کوشش کر رہے تھا اور اِس دوران بچی کے والد کے ساتھ ہاتھا پائی شروع ہو گئی اور اغواء کاروں کے ہاتھوں سے گولی چل گئی جو کہ بچی کے والد کو لگی جس وجہ سے وہ نازک حالت میں ہے مگر اس دوران مقامی لوگوں کے اکٹھا ہو جانے کی وجہ سے اغواء کار بھاگ نکلے مگر اُن کا ایک ساتھی عوام کے ہاتھ آ گیا جس کو خوب مار کٹائی کرنے کے بعد پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

دوسرے واقع میں عوام نے غازی آباد کے علاقے دھوبی گھاٹ سے بچے کو اغواء کرتے ہوئے دو مشتبہ اغواء کاروں کو پکڑ کر ذودکوب کیا اور پولیس کے آنے پر پولیس کی موبائل وین پر پتھرائو بھی کیا گیا اسی طرح کا ایک افسوس ناک واقع لاہور شہر میں ہی پیش آیا جس میں والد اپنی بیٹی کو دوائی لانے کے لئے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا مگر لوگوں نے اُسے اغواء کار سمجھتے ہوئے اُس پر حملہ کر دیا جو کہ عوام اور والدین کی عدم برداشت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ عوام کو اب پولیس پر بھروسہ نہیں رہ گیا۔

Protest

Protest

اغواء کاروں کے ظلم سے تنگ عوام نے اپنی کچہری لگا لی ہے جو کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جنہوں نے ابھی تک اغواء کار پکڑ لینے کے باوجود اصل محرکات کا پتہ نہیں لگایا اس لئے وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر قانون پنجاب اور دوسرے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اپیل ہے کہ خدارا لوگوں کے بچوں کو اغواء ہونے سے بچایا جائے اور اسلسلے میں تشہیری مہم شروع کی جائے جس میں عوام خود سزا دینے کے متحمل نہ بنیں اور فوری طور پر اغواء کاروں کے منظم گروہ کو پکڑ کر عبرت ناک سزا دی جائے۔

اس کے ساتھ پارلیمنٹ میں اغواء کی سزا سزائے موت دی جائے تا کہ اغواء کاروں کو عبرت حاصل ہو اور وہ اس قسم کے جرائم کے مرتکب نہ ہو ساتھ ہی ساتھ عوام سے پُر زور اپیل ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی بجائے قانون کا ساتھ دیں اور محلے کے چند نوجوانوں کی ڈیوٹیاں لگا دی جائیں کہ وہ اپنے اِرد گِرد نظر رکھیں اور کسی بھی کسی کی مشکوک سر گرمی پر فوراََ پولیس کو اطلاع دی جائے اور پولیس والوں سے بھرپور تعاون کریں تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اغواء کے شُبے میں کسی بے گناہ کی جان لے لیں۔

Mohammad Irfan Chaudhry

Mohammad Irfan Chaudhry

تحریر : محمد عرفان چودھری
ممبر پاکستان فیڈرل یونین آف کالمنسٹ