تحریر : ابنِ نیاز
پروپیگنڈا کرنے کے لیے افواہ کا ہونا ضروری ہے۔ اور ہر افواہ کے پیچھے کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور موجود ہوتی ہے۔اب جس رفتار سے پاکستان کے مختلف شہروں سے بچے اغوا ہو رہے ہیں اور اغوا ہونے والے عوام کے ہاتھوں گرفتار ہو رہے ہیں اس میں کتنی سچائی ہے، کتنا جھوٹ۔ یہ رب جانتا ہے۔سوشل میڈیا میں فیس بک ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے کہ دنیا کے ہر علاقے سے اس پر ممبر موجود ہیں۔ اور ہر کوئی کم از کم اپنے علاقے کی خبر رکھتا ہے اور اگر کوئی خبر عوام تک پہچانی ہو تو شیئر بھی کر دیتا ہے۔جب دنیا کی خبریں عوام تک پہنچ سکتی ہیں تو پاکستان کی خبریں پاکستان کے عوام تک کیوں نہیں پہنچ سکتیں۔ اسی چیز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام تک یہ خبریں پہلے پہنچنے لگیں کہ پاکستان کے مختلف شہروں سے بچے اغوا ہو رہے ہیں اور بڑی تعداد میں ہو رہے ہیں۔ میڈیا میں یہ خبر نہیں آئی۔ لیکن پاکستان کے ہر اس شخص تک یہ خبر پہنچ گئی جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے۔ ان میں میڈیا کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ لیکن وہ بھی کیا کریں اپنے اپنے چینل کی پالیسی سے مجبور ہیں کہ وہ خبر تو دکھائی جائے گی، جس سے عوام میں سراسیمگی پھیلے اور جو حکومت وقت چاہے۔ لیکن جہاں کتی چوروں سے ملی ہوئی ہو، وہ خبر ہر گز میڈیا کی زینت نہیں بننی چاہیے۔
پورے ملک میں بچوں کے اغوا کر یوں پھیلے ہوئے ہیں جیسے اچانک فصلوں پر ٹڈی دل کا لشکرحملہ کر دیتا ہے۔ اور روزانہ ہی بچے اغوا ہو رہے ہیں جب کہ حکومت کے نمائندے کہتے ہیں کہ کوئی بڑی بات نہیں ۔ بچے تو اغوا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ درست کہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ آپ کے بچے نہیں ہیں۔ غریبوں کے ہیں، عوام کے ہیں۔ جنھیں کوئی جانتا نہیں۔ جب دبائو بہت بڑھ گیا تو پھر ایک بیان آیا ہے کہ کوئی اغوا نہیں ہو رہے بلکہ یہ تو صرف ایک پروپیگنڈہ ہے۔ صرف عوام میں افراتفری پھیلائی جا رہی ہے۔ کیا میڈیا اتنا ہی سویا ہوا ہے۔ کیا عوامی نمائندے (نام کے ) بالکل ہی بے خبرہیں۔ آپ کے اپنے حلقے میں سے اغوا کی وارداتیں ہو رہی ہیں اور آپ کو علم ہی نہیں۔ ہو بھی کیسے؟ آپ اپنے حلقے میں سلیکشن الیکشن جیتنے کے بعد کبھی واپس گئے ہوں تو علم ہو نا۔ ہاں، اگر کبھی بھولے سے اپنے حلقے کے کسی گلی محلہ میں کوئی احسان کر دیا ہے (جو نہ بھی کرتے تو بھی عوام وہ کام کروا ہی لیتی) ، اس کو کو جتانے کے لیے افتتاح کرنے پہنچ جاتے ہیں۔
کل ایک ویڈیو نظر سے گزری جو کہ کسی محلے کے کسی گلی میں کیمرہ سے لی گئی تھی۔ اس میں تین بچیاں سکول کا یونیفارم پہنے گھر کو آرہی ہیں۔ ان کے پاس ایک سوزوکی بولان آکر رکتی ہے ۔ دو افراد نکلتے ہیں ، ایک بچی کو اچانک سے اٹھا کر گاڑی میں ڈال دیتی ہیں۔ جب تک باقی دو بچیوں کو کچھ سمجھ آتی ہے گاڑی پوری رفتار سے نکل جاتی ہے۔ بچیاں اس گاڑی کے پیچھے بھاگتی ہیں لیکن گاڑی کی رفتار سے کیا مقابلہ۔ بچی اغوا ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی اور بھی بہت سی ویڈیوز موجود ہوں گی۔اربابانِ اختیارتک ضرور پہنچی ہوں گی۔ ان کے اسسٹنٹ تک گئی ہوں گی۔ لیکن صاحب کے حکم کے مطابق اس طرح کی فضول اور لغو اور بے بنیاد خبریں ان تک ہر گز نہ پہنچائی جائیں کے مصداق اسسٹنٹ نے اپنی آنکھوں سے آنے والے آنسو اپنے جگر پر ہی گرائے ہوں گے اور کڑوے گھونٹ پیے ہوں گے۔ پیتے رہو بھائی اور کڑتے رہو، جب تک خود تمھارے گھر کے اندر سے اس قسم کی آہ و فغاں کی آوازیں نہ سنائی دیں۔
بچوں کے اغوا کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ میرا تجزیہ ہے کہ اس میں بھی بین الاقوامی مجرم ایجنسیاں شامل ہیں۔کیونکہ اتنے وسیع پیمانے پر ایک دم سے یہ آفت اس طرح سے نہیں آجاتی۔ کچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری ہے۔ ان ایجنسیوں کا ساتھ دینے والے بہت لوگ ہیں جو وطن کی مٹی کو مٹھی مٹھی کر کے بیچ ڈالتے ہیں۔ جب ان کو ان کا بیان سنایا جائے تو کہتے ہیں کہ پورے سیاق و سباق سے سنیں، جو آپ سمجھے ہیں وہ ہر گز یہ نہیں ہے۔بچوں کو کن وجوہات کی بنا پر اغوا کیا جا رہا ہے، بہت سی ہو سکتی ہیں۔ عرب ممالک میں بچوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔ چونکہ اپنی قوم کے بچے تو ان کو عزیز ہیں اسلیے دوسرے ممالک سے بچوں کو ان تک پہنچایا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں اونٹ دوڑ میں بچوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اونٹوں پر معصوم بچوں کو باندھ دیا جاتا ہے۔
جب اونٹ دوڑتا ہے تو بچے خوف سے چلاتے ہیں۔ ان کی چیخیں سن کر اونٹ بدک کر اور تیز دوڑتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جب دوڑ ختم ہوتی ہے تو اس وقت تک شاید کچھ بچوں کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔ اسکے بعد کچھ ممالک میں بچوں کے اعضا فروخت کیے جاتے ہیں۔ پھر وہی بات کہ اپنی قوم ہر کسی کو عزیز ہے سوائے پاکستان کے صاحبانِ اختیار کے۔ کیونکہ اگر ان کو پاکستان عزیز ہوتا اور پاکستانیت سے پیار ہوتا تواقوام متحدہ کے اس خط کو دل سے لگا کر رکھتے جو اس نے حکومت کو لکھا کہ پاکستان سے تازہ جسمانی اعضاء کی سمگلنگ بہت زیادہ وہ رہی ہے، اسے کنٹرول کریں۔ تو اس خط پر اس پر اس طرح کا ایکشن لیتے جیسے چھوٹو گینگ کے لیے فوج کو بلا لیا گیا تھا۔
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ہماری تیز طرار پولیس کو معلوم نہ ہو کہ علاقے کا کونسا مجرم کس قسم کا جرم کرتا ہے اور جرم کرنے کے بعد کہاں جاتا ہے۔ لیکن ان بے چاروں کی بھی مجبوری ہے۔ وہ بھی اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے میں لگے ہیں۔ اگر مجبوری کا نام شکریہ نہ رکھیں تو پھر ان کی نوکری جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جیسے ہی وہ ایکشن لیتے ہیں ، فوراً سے پہلے ان کے دفتر کے ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے کہ بھائی جی ہاتھ ہولا رکھو اگر جان، گھر اور گھر والے عزیز ہیں۔ اور وہ جان اور جان دار کو عزیز رکھ لیتے ہیں کہ جن کے لیے کماتے ہیں، وہ ہی نہ رہے تو فائدہ۔
اس کے بعد بیگار کیمپ بھی تو چلانے ہیں ۔ بڑی بڑی چٹانیں توڑنے کے لیے اگر وہ مشینیں منگوائیں تو خرچہ بہت ہوجاتا ہے اور اس میں بچت نہیں ہوتی ہے۔اس لیے بچوں کو اور جوانوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ ان سے بیگار کیمپ میں یہ کام لیا جاتا ہے۔ بعض شہروں میں بڑے بڑے گروہ بنے ہوتے ہیں۔ جن کو بھیک منگوانے کے لیے ہر چار چھ ماہ بعد نئی کھیپ چاہیے ہوتی ہے۔ تو پھر اغوا کار ایکشن میں آجاتے ہیں اور بچوں کا اغوا شروع ہو جاتا ہے۔ بچوں کو مختلف لحاظ سے معذور کرکے ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ خاص طور پر ان بچوں کو جو تھوڑا ضدی ہوتے ہیں اور ان کی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ جو بچے بات مان جاتے ہیں ان کو بس بھیک مانگنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح بچوں اور نوجوانوں کو یعنی پانچ سے پندرہ تا اٹھارہ سال کی عمر کے افراد کو بھی اغوا کیا جاتا ہے۔
ان سب کے پیچھے یا تو مختلف ممالک کے بڑے بڑے مجرم ادارے ہیں اور یا پھر پاک وطن کے غلیظ اور دوغلے لوگ۔ جو عوام کے سامنے صدقات، خیرات اور عطیات اور نیکی کے کاموں کا پرچار کرتے ہیں لیکن کالی رات میں اپنا مکروہ کاروبار چلاتے ہیں۔کیونکہ کچھ ملکوں میں اغلام بازی کی وبا بھی پھیلی ہوئی ہے۔ قوم حضرت لوط علیہ السلام اسی لیے ہلاک ہوئی تھی۔ اور آج بہت سے ملکوں میں یہ کھیل پھر سے کھیلا جا رہا ہے۔ بلکہ چند ممالک میں تو باقاعدہ سے ہم جنس پرستی کا قانون بن گیا ہے۔ فطری قانون کے خلاف چلنے والے کب تک عیاشی کریں گے۔ جلد ہی ان کو احساس ہو گا کہ بہت برا کر رہے ہیں۔
لیکن شاید تب تک پانی سر سے گزر چکا ہو گا۔بچوں کو اغوا سے بچانا ہے تو ہمیں حکومت پر یا پولیس پر بھروسہ کرنے کی بجائے خود احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی۔بچوں کو کسی بھی حالت میں تنہا نہ چھوڑا جائے۔ کہیں بھی جائیں توبچے کا ہاتھ خود پکڑیں، نہ کہ بچے کو اپنا ہاتھ پکڑائیں۔ انہیں سکھایا جائے کہ کسی بھی انجان بندے کے اشارے پر اس کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں نہ ہی کھانے پینے کی کسی چیز کے لالچ میں ان کے ہاتھ لگنا ہے۔ گھر سے اکیلے بچے کو باہر نہ جانیں دیں۔ دکان تک بھیجیں تو دکاندار سے کہا جائے کہ بچے کو آتا جاتا دیکھتا رہے۔ کوئی اجنبی محلے میں نظر آئے تو اس پر نگاہ رکھیں۔شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔
تحریر : ابنِ نیاز