تحریر: میر شاہد حسین
اکثر والدین کو اپنے بچوں سے یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ پڑھتے نہیں۔ اپنے بڑوں کا ادب نہیں کرتے ۔ اپنا وقت ٹی وی ، کمپیوٹر یا موبائل کے گیم اور کارٹون دیکھ کر گزار دیتے ہیں اور اپنی آنکھیں خراب کرتے ہیں۔ ان کی زبان بھی روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔ اخلاقیات تو گویا ان کو چھو کر بھی نہیں گزری۔نہ ادب سے واقف ہیں اور نہ ہی آداب سے۔ ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔
شکایات کی ایک طویل فہرست ہے جن کا یہاں احاطہ بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کرنا مقصود ہے۔ بچے ہم سب کی ذمہ داری ہیں کیونکہ یہی پاکستان کا روشن مستقبل ہیں۔یہ وہ کورا کاغذ ہیں جن پر ہم نے اپنا مستقبل کا نقشہ تعمیر کرنا ہے۔ بچے ہمارا عکس بھی ہیں کہ یہ ہمیں دیکھ کر سیکھتے ہیں۔لیکن ہم اپنی ذمہ داریوں سے یہ کہہ کر عہدا براں نہیں ہوسکتے کہ دوسروں نے اپنا حق ادا نہیں کیا۔ والدین اس معاملے میں اکثر اساتذہ کو قصوروار سمجھتے ہیں کہ ہم بچوں کو بہترین اسکولز میں اس لیے داخل کراتے ہیں کہ وہ کچھ تعلیم و تربیت سیکھیں لیکن اساتذہ بھاری فیس تو لیتے ہیں تعلیم نہیں دیتے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ بچہ ہمارے پاس صرف پانچ تا چھ گھنٹے ہوتا ہے باقی وقت وہ گھر میں گزارتا ہے۔ لہٰذا ان کی ذمہ داری اتنی نہیں بنتی۔ میرا مقصد یہاں ذمہ داریوں کا تعین بھی نہیں کہ کس کی کتنی ذمہ داری بنتی ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ اس سارے معاملے میں بچے اس حد تک متاثر ہوئے ہیں کہ بقول اکبر الہ آبادی یہ کہنا پڑتا ہے…
ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
جنہیں پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
ہماری نصاب کی کتب کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کتابوں کا ایک ڈھیر ہے جو ایک گدھے پر لاد دیا گیا ہے کہ جسے اٹھا کر گدھا عالم نہیں بنتا۔ ہمارے ایک استاد ہمیں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ تم اپنے ذہن میں پوری دنیا کا علم نہیں سمو سکتے ، تم پوری ڈکشنری حفظ نہیں کرسکتے لیکن تم اپنے اندر پڑھتے رہنے کی صلاحیت پیدا کرو ۔ اس سے تم دورئہ حاضر سے آگاہ بھی رہو گے اور تم تاریخ سے بھی واقف ہوجاؤ گے۔ تمہیں پڑھتے رہنا ہوگا اور سیکھتے رہنا ہوگا کیونکہ جو ایسا نہیں کرے گا وہ علم کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔
اسکول کے نصاب کا مقصد بچوں کو علمی بنیادیں فراہم کرنا ہونا چاہیے ۔ لیکن ہم نے چاہا کہ دنیا بھر کا علم بچے کو نصاب کی صورت گھول کر پلا دیں جس سے ہوا یہ کہ جو گلاس میں پانی تھا وہ بھی چھلک گیااور پڑھنے سے نفرت اور بیزاری نے جنم لیا۔ اگر ہم تعلیمی نصاب میں کتابوں کو کم کریں اور بچوں میں مطالعہ کی عادت پیدا کریں تو شاید ہم اس کا کسی حد تک ازالہ کرسکتے ہیں جو ہم نے کتاب سے دوری پیدا کرکے حاصل کیا ہے۔ بچوں میں ادب کو پروان چڑھانے کے لیے اسکولز میں نہ صرف لائبریریز کا قیام عمل میں لانا ہوگا بلکہ ان کو اس طرف راغب بھی کرنا ہوگا کہ وہ خود انھیں اپنی مرضی سے پڑھے۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی بچوں کے رسائل اور کتابیں نہ صرف لا کر دیں بلکہ انہیں پڑھ کر سنائیں اور خود بھی سنیں۔ سوتے وقت ایک کہانی روزانہ پڑھ کر سنائیں۔ ہم بچوں کے مستقبل کے لیے ہر وقت فکر مند رہتے ہیں لیکن اس کے لیے کیوں کچھ نہیں کرتے۔ آپ کا وقت، بچوں کے رسائل اور کتب ہی بچوں میں ادب کو فروغ دے سکتے ہیں۔
ویسے تو بچوں کے بے شمار میگزین مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو بچوں میں ادب کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں لیکن میں یہاں حال ہی میں شائع ہونے والا بچوں کا میگزین ماہنامہ ‘ساتھی’ کا ذکر خاص طور پر کروں گا کہ جنہوں نے اس ماہ ‘ابو نمبر’ شائع کیا ۔جسے پڑھ کر میں بحیثیت ایک باپ کے سراہے بغیر نہ رہ سکا۔ اس میں پاکستان کے بہترین ادیبوں نے اپنی بہترین کاوشوں سے قلم کے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ جسے پڑھتے ہوئے کئی بار میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اتنے اچھے میگزین مارکیٹ میں مو جود ہیں لیکن ہم پھر بھی پتا نہیں کیوں ادب سے محروم ہیں!ادب کو چھوڑ کر آج ہم بے ادب ہو گئے ۔ کیا ہم اپنے بچوں کوہر ماہ ایک میگزین بھی خرید کر نہیں دے سکتے۔معاملہ بچوں کے ادب کا ہے پھر شکایت مت کیجیے گا…!!
٭…٭
تحریر: میر شاہد حسین