تحریر : ایم پی خان
ہمارے بچے ہمارا قیمتی سرمایہ ہے۔یہی بچے بڑے ہوکر اس ملک کے باگ ڈور سنبھالیں گے اوراس ملک کی ترقی اورسلامتی ان بچوں کی بہترین تعلیم وتربیت سے وابستہ ہے۔ہمارے ملک میں ویسے توبچوں کی تعلیم کے لئے بڑے بڑے ادارے موجودہیں۔جن میں کچھ صرف نام کی حد تک کافی مشہورہیں اورکچھ اداروں کی کارگزاری بھی کافی اچھی ہے۔لیکن سب سے بڑامسئلہ تربیت کا ہے۔ویسے تو پاکستان میں تمام تعلیمی ادارے اس بات کے بلندبانگ دعوے کرتے ہیں کہ ان کے ہاں تعلیم وتربیت کا بہترین نظام موجودہے، تاہم اس مقصدکے لئے آج تک کسی نے عملی طورپرکچھ نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ بچوں میں کوئی ایسی تبدیلی نظرنہیںآتی ، جس سے انکے اخلاق میں بہتری کاپتہ چلے اوروہ صحیح معنوں میں مسلمانوں کے بچے نظرآئے۔اس ضمن میں اداروں کاکرداراپنی جگہ لیکن سب سے اہم کرداروالدین کاہے۔
اکثروالدین کا یہی خیال ہوتاہے کہ وہ پیسے خرچ کرتے ہیں اوریہی انکے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے کافی ہے۔وہ اپنے بچوں کو گھرمیں وقت نہیں دیتے ، انکی کردارسازی میں حصہ نہیں لیتے اورنہ ہی انکی نشست وبرخاست پر نگاہ رکھتے ہیں۔یہی وہ سارے عوامل ہیں، جس سے بچے بے راہ روی کاشکارہوتے ہیں۔بچے سکول سے آنے کے بعدگھروں سے نکلتے ہیں اورایسی ایسی جگہوں میں وقت گزارتے ہیں، جس سے انکے کرداربگڑجاتے ہیں۔سارادن یاتوانٹرنیٹ پر غیراخلاقی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیںاوریاگلی کوچوں اوربازاروں میں آوارہ گردی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کئی سال سے پاکستان کے مختلف حصوں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رونماہورہے ہیں۔سانحہ قصوربھی ایسے ہی واقعات کی ایک کڑی ہے۔
جس کی وجہ سے دنیابھرمیں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔اس سانحہ کے پیچھے کافی لوگوں کاہاتھ ہے۔جس میں سب سے پہلے ان والدین کابھی کردارہے، جن کے بچوں کے ساتھ ایساانسانیت سوزسلوک کیاگیاہے۔آخر ایساکیا مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے ان کے والدین نے آج تک ردعمل ظاہرنہیں کیااوراگرکچھ عناصرانکے راستے میں رکاوٹ بن رہے تھے توانکے خلاف بھی آوازاٹھانا چاہئے تھی ۔اس ضمن میں سب سے بڑادردناک امریہ ہے کہ کچھ سرکاری اہلکار بھی اس گھناونے جرم میں ملوث رہے ہیں ، جن کی سرپرستی بڑی بڑی سیاسی شخصیات کررہے ہیں۔پاکستان میں کئی قسم کے جرائم میں سرکاری اہلکاروں کی پشت پناہی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
چوری، ڈکیتی، کرپشن ، اغوابرائے تاوان اورجنسی زیادتی کے بے شمارواقعات میں پولیس اہلکارملوث پائے گئے ہیں۔سانحہ قصور میں بھی پولیس آفسران اورسیاسی شخصیات کے ملوث ہونے کے انکشافات ہوئے ہیںاوریہی وجہ ہے کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دیاجارہاہے ۔مجرموں کو بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اورمعاملے کو کسی نہ کسی طرح دبادیاجارہاہے ، جیساکہ یہ کوئی معمولی نوعیت کاوقوعہ ہو۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر غیرفطری جنسی زیادتی اورپھراس سے بھی بڑھ کر اسکے ویڈیوزبنانااور اسے کمرشل مقاصدکے لئے استعمال کرنا، یہ تمام ایسے امورہیں ، جواسلامی نقطہ نظرسے بدین ترین گناہ ہیں
دنیاکے تمام قوانین کی روسے بڑے جرائم ہیںاورہرمعاشرے میں شدیدترین برائیاں تصورکئے جاتے ہیں۔بعض مبصرین کاخیال ہے کہ یہ واقعہ سانحہ پشاور سے بھی بڑا لمیہ ہے ۔سانحہ پشاورکے بعدوالدین کو بچوں کی جان کی فکرلگی ہوئی تھی لیکن پورے ملک بالخصوص صوبہ خیبرپختونخواہ کے والدین اوربچوں نے انتہائی بہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کاڈٹ کرمقابلہ کیا۔وہ توچند دہشت گردتھے ، جن کاکچھ پتہ نہیں کدھرسے آئے اورپھران کاانجام بھی سب نے دیکھ لیا، لیکن سانحہ قصورتومیرے خیال میں دنیاکی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے،
کیونکہ ایک اسلامی ملک میں اورپھرملک کے سب سے بڑے صوبے میں ، جہاں شرح خواندگی تمام صوبوں کی نسبت زیادہ ہے اورجہاں کے پولیس کو دیگرصوبوں کی نسبت زیادہ مراعات دئے گئے ہیں۔جہاں ایک لمبے عرصے سے بدستورمسلم لیگ نون کی حکومت آتی رہی ہے۔جہاں ایک بہترین نظام حکومت موجودہے اورقانون کی بالادستی ہے اوران تمام سے بڑھ کر ایک اسلامی معاشرہ ہے۔
پھر یہاں معاشرے کے سب سے معصوم طبقے کے ساتھ ایسا انسانیت سوزسلوک کیوں کیاجارہاتھا ۔وہ بھی حادثاتی طور پر نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اور اس مقصدکے لئے ایک پورا پراجیکٹ بنایا گیا تھا۔اشرافیہ اورسیاسی شخصیات کی نگرانی میں خوب تجربہ کار اور ماہر افراد کی ٹیم بنائی گئی تھی ۔جنہوں نے ایک لمبے عرصے سے خوب کامیابی سے اپنا پراجیکٹ چلایا ۔انہوںنے نہ صرف پوری دنیامیں پاکستان کی بدنامی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ تاریخ میں ایک ان مٹ باب ثبت کردیا۔
ایسی بے رحمی ، سنگدلی اوربے دردی ،جس نے اس پورے دوربلکہ زمانے پر بدنامی کاایساداغ لگایاہے، جس کومٹانے کے لئے شاید صدیاں لگیں۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے اورغیرجانبداری سے معاملے کی تحقیقات کی جاکر مجرموں کوایسی سزائیں دی جائیں ، جواس قسم کی سوچ رکھنے والوں کے لئے عبرت کاذریعہ بنے۔
مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے بچنے کیلئے والدین کواپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انکی تربیت کابھی خاص خیال رکھناچاہئے اورحکومت کو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے حوالے سے قوانین کو مزیدموثربنانے چاہئے۔
تحریر : ایم پی خان