تحریر : محمد نواز بشیر
آج سے سترہ سال قبل دسمبر 1999 کی بات ہے کہ پاکستان بھر میں اس وقت سنسنی پھیل گئی جب لوگوں کے سامنے 100 بچوں کے بہیمانہ اغوا، قتل اور ان کے ٹکڑے کر کے تیزاب میں جلا دینے کا لرزہ خیز سکینڈل منظر عام پر آیا ہر اس گھرانے میں صف ماتم بچھ گئی جس کاکوئی بچہ اغوا یا لا پتہ ہوا تھا پورے ایک سو بچے اغوا ہو جانے کے بعد بھی پولیس کو کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی جا وید اقبال نامی 38 سالہ جنونی آدمی نے صرف 6 ماہ میں ایک سو بچوں کو اغوا کیا ان بچوں کی عمریں 6اور 16سال کے درمیان تھیں ان میں زیادہ تر بچے گلیوں میں آوارہ پھرنے اور مانگنے والے تھے۔ وہ ان بچوں کوراوی روڈ میں واقع ایک مکان میں لے جاتا اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا پھر زنجیر کے ساتھ گلا دبا کر ماردیتا اور ان کے مردہ جسموں کے ٹکروں کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال کر بھسم کر دیتا تھا اور ایک ایک بچے کا ریکارڈ اپنی ڈائری میں لکھتا جو ڈائری 32 صفحات پر مشتمل تھی۔
ان دنوں گلی گلی محلہ محلہ ، گھر دفاتر ہر جگہ سو بچوں کے بھیانک قتل کی خبر ہی موضوع گفتگو ہوا کرتی تھی ان بھیانک واردتوں کا انکشاف کرنے کے لئے خود جاوید اقبال نے پولیس والوں کو خطوط لکھے اور اپنے ان گھناؤنے جرائم کا اعتراف کیا تھا اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری طرح حرکت میں آگئے لیکن پھر بھی وہ گرفتار نہیں ہو سکا تھا، اس قاتل کی گرفتاری بھی انتہائی ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی وہ خود ہی لاہور کے ایک بڑے اخبار کے دفتر میں پہنچ گیا او ر اخبار والوں کو اپنا تعارف کرایا کہ میں سو بچوں کا قاتل ہوں اور یہ خبر آگ کی طرح پاکستان بھر میں پھیل گئی ایک ماہ تک جنونی قاتل نے پولیس کو چکرائے رکھا اور پھر کہیں جا کر مطلوبہ مکان پر لے گیا، جہاں سے بچوں کی جلی ہوئی ہڈیاں، تیزاب کے ڈرم جلے پھٹے کپڑے اور بچوں کی تصاویر برآمد ہوئیں انہیں دیکھ کر ماؤں کی چیخیں نکل گئیں۔
سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کا تین ماہ کی عدالتی کاروائی کے بعد مارچ2000 میں جب عدالت نے فیصلہ سنایا تو اس وقت کے جج اللہ بخش نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ جاوید اقبال سو بچوں کا قاتل ثابت ہو گیا ہے اس کا گلا بھی زنجیر کے ساتھ سو بار گھونٹا جائے، اس کے جسم کے بھی سو ٹکرے کئے جائیں اور ان کو بھی تیزاب میں اسی طرح ڈالا جائے جس طرح وہ بچوں کے ساتھ کیا کرتا تھا ۔عدالتی فیصلے پر عمل درآمد سے پہلے ہی 9اکتوبر2001 کو کوٹ لکھپت جیل میں پراسرار انداز میں معصوم بچوں کے قاتل جاویداقبال کی موت ہو گئی لیکن اس کی اور سو بچوں کی موت اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گئی تھی کہ ان سو بچوں کا کیا قصور تھا ان کی موت کا ذمہ دار کون تھا والدین، معاشرہ، یا ریاست؟اسی طرح آج کل بھی بچوں کے اغوا ہونے کی ورداتیں عروج پر ہیں آئے روزپاکستان کے ہر شہر سے بچوں کے اغوا ہونے کی خبریں آ رہی ہیں اور حکومت کے تمام تر بلند بانگ دعوؤں کے باوجود بچوں کے اغوا اور ان کے قتل کا سلسلہ جاری ہے۔
بچوں کے اغوا پر عوامی رد عمل اورغصے کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ اب لوگوں نے قانون کو خود ہاتھ میں لینا شروع کردیا ہے ملک بھر میں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جہاں شہری بچوں کے اغوا کے شبہ
میں پکڑے جانے والوں پر بدترین تشدد کر رہے ہیںکسی بھی ملک میں یہ صورت حال اس وقت جنم لیتی ہے جب معاشرے سے انصاف اٹھ جاتا ہے، وہاں کے ادارے ناکام ہو جاتے ہیں اور انسانی اقداریں دم توڑنے لگتی ہیں اب تو لگتا ہے کہ پاکستان کی سوسائٹی بھی ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں ہر بڑا اور طاقتور چھوٹے اور کمزور کو ہڑپ کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتاہے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت میں ہی جب بچے غیر محفوظ ہو جائیں تو باقی شہروں کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے پنجاب سے شروع ہونے والا بچوں کے اغوا کا سلسلہ اب ملک بھر میں پھیلتا جا رہا ہے اگر ہم کراچی کی بات کریں تو کراچی میں ایک تنظیم کی طرف سے سوشل میڈیا اور اخبارات میں ایک مہم چلائی گئی ہے کہ جن کے بچے اغوا یا لا پتہ ہوچکے ہیں وہ بچوں کی تصاویر کے ساتھ احتجاجی مظاہرے میں شامل ہوں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے پاکستان میں وطن دشمن عناصر کا ایک انتہائی منظم اور طاقتور نیٹ ورک موجود ہے جو بچوں کے اغوا میں ملوث ہو سکتاہے کیونکہ تمام تر حکومتی بیانات اور وضاحتوں کے باوجود ملک بھر سے اب بھی بچوں کے اغوا ہونے کی رپورٹس آ رہی ہیں۔
آرمی چیف کی طرف سے کوئٹہ میں دہشت گردی کے بعد ملک بھر میں کومبنگ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا، اسی کے تحت اب پنجاب میں تمام سکولوں کے گر دو نواح کی آبادیوں میں فوری اپریشن شروع کیا گیا ہے گھر گھر تلاشی لے کر مکینوں کے کوائف چیک کئے جائیں گے سکولوں کے گارڈز، ڈرائیورز اور ٹیچرز کے بائیو ڈیٹا کی پڑتال ہوگی۔ سکولوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ بچوں کو چھٹی سے قبل سکولوں سے باہر نہ بھیجا جائے اس کے ساتھ ہی حکومت پنجاب کی طرف سے سکولوں کے باہر ہر قسم کی اشیا کی فروخت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ محکمہ تعلیم کی طرف سے نوٹیفیکشن جاری کیا گیا ہے کہ والدین کو سکولوں سے بچے لے جانے کے لئے اپنی شناخت کرانا ہو گی۔
لا پرواہی کرنے پر سکولوں کے خلاف سخت کاروائی ہو گی۔یہ تمام اقدامات حفاظتی نوعیت کے ہیں جن سے نہ صرف خوف و ہراس پھیلے گا بلکہ والدین کے لئے گھروں اور دفاتر میں کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ان کی توجہ ہر وقت اپنے بچوں کی طرف رہے گی اس سے لگتا ہے کہ خود بچوں کی تعلیمی استعداد اور قابلیت بھی متاثر ہو گی جس بچے کے ذہن میں ہر وقت اغوا کا خدشہ رہے گا وہ کیسے یکسوئی کے ساتھ پڑھ سکے گا؟ ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 6 ماہ کے دوران لاہور سمیت پورے پنجاب سے 600 سے زائد بچے لاپتہ ہوئے ان میں سے کچھ تو گھروں سے بھاگے اور زیادہ تر بچوں کوا غوا ء کیا گیا ہے ،ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میںبتایا کہ ان بچوں میں سے تقریباً 41 فیصد بچے ایسے ہیں جو خود گھروں سے بھاگے ہیں اور 59 فیصد کو اغوا کیا گیا، اغواء ہونے والے بچوں کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ بچوں کو ان کے رشتے داروں نے اغوا کیا کچھ تاوان کیلئے اغوا ہوئے کچھ کو جنسی استحصال کیلئے اغوا کیا گیا اور کچھ آپس کی دشمنی کی بنا پر اغوا ہوئے ڈاکٹر حیدر اشرف نے مزید بتایا کہ ان میں سے بہت سے بچوں کو بازیاب کروا کے ان کے والدین کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی باتیں اپنی جگہ درست سہی لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کا اغوا ہونا، چاہے ان سب واقعات کے پیچھے وجہ جو بھی ہو۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی اور نااہلی نہیں ہے تو کیا ہے؟بچوں کے اغوا ء پر سپریم کورٹ کا از خود نوٹس اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ Child Protection & Welfare Bureauکے ایک ذمہ دار آفسر کا کہنا ہے کہ بچوں کو اغوا ء کرنے والوں کے چند مقاصد ہو سکتے ہیں جن میں پہلا مقصد اسلامی ممالک میں” اونٹوں کی دوڑ ہوتی ہے ”جس پر اربوں روپوں کا جوا کھیلا جاتا ہے یوں کہنا غلط نہیں ہو گاکہ اسلامی ممالک کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے اس ریس کو دیکھنے کے لیے لوگ چلے آتے ہیں اس ریس میں اونٹ کی پیٹھ پر پانچ سے دس سال عمر کے بچوں کو رسیوں کے ساتھ کس کر باندھا جاتا ہے جب اونٹ سوار سخت چابک کو گھما کر بچے کو بے دردی سے پیٹتا ہے تو بچے کی چیخیں وہ مخصوص آوازیں ہیں جو اونٹ سن کر اپنی پوری تیز رفتاری سے بھاگ نکلتا ہے، یعنی اونٹ کو تیز دوڑانے کے لیے صرف معصوم بچوں کی آہ و بکا ہی تیز انگیزی (catalyst) کا کام کرتی ہے بادشاہ، شہزادے اور سود خور سرمایہ پرست اس ریس کو دیکھ کر خوب تالیاں بجاتے ہیں اور جس اونٹ پر ان کا دائو لگا ہوتا ہے اس کی جیت کے لیے خود بھی چیخ و پکار کر تے اورزور لگا رہے ہوتے ہیں یہ ریس انسانیت کی توہین ہی نہیں بلکہ معصوم بچوں پر ظلم و تشدد اورسفاکیت کی انتہا بھی ہے۔
دوسرا مقصد انسانوں کی تجارت ہو سکتا ہے جو جدید دور میں غلامی کی ایک شکل ہے اور یہ لعنت دنیا کے ہر علاقے اورملک میں موجود ہے محنت مشقت اور جنسی استحصال کے لیے مردوں ، عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ اور ان کی خرید و فروخت، منظم گروہوں کے لیے پیسہ بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ بنتا جا رہا ہے انٹرنیشنل لیبر آرگنائیزیشن کے مطابق سات لاکھ سے 40 لاکھ تک انسان جن میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے ،بچوں میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں شامل ہیں ہر سال دنیا بھر سے اغواء کر کے بین الاقوامی سرحدوں کے آر پار پہنچائے جاتے ہیںتیسرا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ بچوں کو اغوا ء کرنے کے بعد بچوں کو معذور بنایا جاتا ہے اور پھر ان معذور بچوں کو شہر کے چوکوں پر بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیاجاتاہے یا ان بچوںکی غلط تربیت کر کے ان بچوںسے چوری ،ڈاکہ زنی یا دہشتگردی جیسے سنگین جرائم کروائے جاتے ہیں۔
تحریر : محمد نواز بشیر
nawaz.fm51@yahoo.com