تحریر: محمد نعیم
حضرت لقمان کی وہ نصیحتیں جن کا والدین کو علم ہونا ضروری ہے گلی کے کنارے، کھیل کے میدان، اسکول کی کینٹین، ہوٹل، کمرہ جماعت، بس یا وین۔ ہماری وہ نسل جو علم سیکھنے، پڑھنے لکھنے جا رہی ہوتی ہے۔ کبھی ان کی گفتگو تو سنیں۔ ہر ایک دوسرے کومخاطب کرنے سے پہلے گالی دے گا۔ دوسرا جواب بعد میں دے گا، پہلے موٹی سے گالی سے سامنے والے کو نوازے گا۔ گالی بھی ایسی کہ ذرا سا اس کے مفہوم پر غور کر لیا جائے تو کہنے والا اور جس کو ان القابات سے نوازا جا رہا ہوتا ہے وہ دونوں مارے شرم کے زمین میں گڑھ جائیں۔ یہ لچے لفنگے،بازاری لوگ جو اَن پڑھ ،جاہل، تہذیب و اخلاقیات سے عاری، تھڑے والے ہوتے ہیں۔ان کی بات نہیں ہو رہی بلکہ معززین شہر اور شرفاء کے گھرانوں کے پڑھے لکھے مہذب کہلانے والے سپوت اس حالت میں ہیں۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ معاشرے میں اپنے اہل خانہ کی کفالت اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر فرد اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ بچوں کی تربیت، ان کی زبان ، لب و لہجہ، چال چلن، درست کرنے کے لیے وقت نکال سکے۔ ایسے میں اگر والدین کے پاس فرصت کے لمحات ہیں تو وہ یہ چند نصیحتیں ضرور پڑھ لیںجو ایک عظیم ہستی اپنے بیٹے کو کر رہی ہے۔ یہ اتنے خوبصورت جملے اور باتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن مجید کا حصہ بنا کر رہتی دنیا تک ایک نمونہ بنا ددیئے ہیں کہ والدین اگر اپنے بچوں کی اچھی تربیت چاہتے ہیں تو وہ انہیں ان باتوں سے ضرور آگاہ کریں۔ یہ وہ معاملات ہیں جن میں اچھے برے کی تمیز والدین بچوں کو ضرور کروائیں۔
دیکھیں لقمان علیہ السلام جیسی عظیم ہستی اپنے بیٹے کو کن باتوں کی تعلیم دے رہے ہیں۔ قرآن مجید کی 31ویں سورة کا نام ہی سورة لقمان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سورة کے دوسرے رکوع میں وہ نصیحتیں درج ہیں جو حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو کیں۔ پہلی نصیحت کیا ہے۔ بیٹے کو رب کا تعارف کروایا۔ کہا بیٹا عبادت کے لائق اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے۔ دنیا میں ان کے علاوہ جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس عمل کو شرک کہا جاتا ہے۔ عبادت سے مراد کیا ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی سے دعا کرنا، مانگنا، اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس کے آگے سجدہ کرنا یا جھکنا، کسی اور کے نام پر صدقہ، خیرات کا قربانی کرنا، یہ تمام عمل عبادت کے زمرے میں آتے ہیں۔ کہا بیٹا اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا ، یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ آج مسلمانوں کے بچوں کو عبادت کے مفہوم ہی کا علم نہیں۔نہ انہیں توحید و شرکت میں تمیز ہے۔
دوسری نصیحت یہ کی کہ بیٹا !کوئی بھی چھوٹا سے چھوٹا اچھا یا برا کام چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ تم زمین کی گہرائیوں ، کسی چٹان کے اندر یا آسمان کی وسعتوں میں کرو۔ وہ اللہ تعالیٰ سے تم نہیں چھپا سکتے۔ کل روز قیامت وہ عمل اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے پیش کر دے گا۔ سبحان اللہ کتنی ہی اچھی بات ہے۔ اگر ہر کوئی یہی سوچ لے کہ یہ جرم یا گناہ کرتے وقت اس کا خالق و مالک دیکھ رہا ہے۔ تو یہی سوچ اسے بہت سی برائیوں سے روک لے گی۔
تیسری نصیحت یہ کی کہ بیٹا نماز کو ادا کرنے کی پابندی کو اپنے لیے لازم رکھنا ۔ لوگوں کو اچھی باتوں کی ترغیب بھی دینا اور اگر کسی کو برائی کرتے دیکھو تو اسے منع بھی کرتے رہنا اور مشکلات پر صبر کرنا، کیوں کہ مشکل میں صبر کرنا بڑی ہمت والا کام ہے۔ اگر اس نصیحت کی روشنی میں ہر کوئی رب کی بندگی اور عبادت میں لگ جائے۔ جو غلط کام ہوتا دیکھے ان کو سمجھانے کی کوشش کرے اور جو اچھا کام کرنے جا رہا ہو۔ ساتھ دوسرے دوستوں اور باقی لوگوں کو بھی ملا لے کہ آ جاوبھائی یہ ایک اچھا کام ہے تم بھی ساتھ دو۔ توکیا خیال ہے کیا اس سے معاشرے میں مثبت نتائج پیدانہیں ہوں گے۔ لوگ پریشانیوں میں پھنس جانے کے بعد نہ جانے کیا کیا قدم اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن اگران پر وہ صبر کریں تو بھی بہت سے معاملات بگڑنے کے بجائے سنور جائیں۔
اگلی نصیحت میں حکیم لقمان اپنے بیٹے کو انسان کی اصلیت بتاتے ہوئے کہ رہے ہیں کہ تو مٹی کا بنا ہوا ہے۔ رب کی مخلوق ہے جسے عاجزی پسند ہے۔ لہٰذا توں نے لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو ممتاز بنانے کے لیے غرور و تکبر کو اختیار نہیں کرنا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کسی خودسراور مغرورکو پسند نہیں کرتا۔انسان بس اتنا سوچ لے کہ اگر اس کی جسم میں جو جان ہے وہ نکل جانے کے بعد وہ کیا رہ جائے گا۔ اور جان بھی ایسی کہ اس پر اپنا اختیار کچھ بھی نہیں۔
پھر حکیم لقمان اپنے بیٹے کو آداب محفل اور تہذیب کی بات بتاتے ہیں کہ دیکھو!دوسروں سے بات کرنے اور لوگوں کے درمیان چلنے میں میں اعتدال اور دھیمے انداز کو اختیار کرنا۔ آہستہ چلنا اور اپنی آواز کو بھی پست اور آہستہ رکھنا۔ زیادہ اونچی آواز میں ہانکنا انسانوں کا نہیں گدھوں کا کام ہے۔ اپنی آواز کو اتنا بلند نہ کرے کہ وہ گدھے کی آواز سے مشابہت اختیار کر لے کیوں کہ گدھے کی آواز سب آوازوں میں سب سے زیادہ بری آواز ہے۔ ایک منٹ کے لیے سوچیں۔ جب ہم دوستوں کے درمیان بیٹھے ہوتے ہیں یا کسی محفل میں ہوتے ہیں تو ہمارے بولنے کا انداز کیسا ہوتا ہے۔
اس بات کا فیصلہ آپ خود کریں! اب نوجوان خود بھی ان نصیحتوں پر عمل کریں اور والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو تک یہ نصیحتیں ضرور پہنچائیں جوحضرت لقمان کے بیٹے کی صورت میں تمام نوجوانوں کے لیے ہیں۔ یقینا ان پر عمل کر کے نوجوانوں کی بڑی اچھی تربیت ہو جائے گی اور ہماری نسلیں اور معاشرہ گمراہی اور بے راہ روی کے بجائے مثبت انداز میں پروان چڑھے گا۔ اللہ مجھ سمیت تمام مسلمانوں کی اولادوں کو نیک و صالح اور والدین کا فرمانبردار بنائے اور دنیا و آخرت میں انہیں والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین
تحریر: محمد نعیم
naeemtabssum@gmail.com