یہ قانونِ قدرت ہے اور معاشرتی اصول بھی کہ جس چیز کے لیے انسان بہت سی امیدیں رکھتا ہے اور پل پل اس چیز کے ملنے کی دعائیں کرتا ہے تو جب وہ چیز آپ سے چند قدم کی دوری پر ہوتو اس چیز کے ملنے کی خوشی پچھلی تمام تکلیفوں اور دکھوں کو ایک پل میں ختم کر دیتی ہے۔
کچھ ایسا ہی سائرہ کے ساتھ بھی ہوا تھا، وہ ایک خبر اس کے ہر دکھ ، ہر تکلیف ، ہر زخم کا مرہم تھی، جس خبر کو سننے کے لیے وہ کتنے سال روئی تھی آج وہ خبر سن کر بھی اس کی آنکھیں نم تھیں مگر یہ آنسو خوشی کے تھے۔ پانچ سال پہلے جب وہ اس گھر میں جمیل کی دلہن بنے اس گھر میں آئی تھی تو سب کچھ کتنا الگ تھا، اور پھر آہستہ آہستہ کیسے سب کچھ بدلتا گیا، سائرہ اور جمیل کی پسند کی شادی تھی، زندگی خوشیوں کی باہوں میں گزر رہی تھی، سسرال میں بھی سب سائرہ سے بہت خوش تھے، ساس سسر کی خدمت، دیور اور نند کے ساتھ دوستانہ رویہ ، بلاشبہ وہ ایک روایتی بہو تھی جو جلد ہی سب کے دلوں میں گھر کر جاتی ہیں۔
زندگی مزے سے گزر رہی تھی ، مگر اب گھر میں سب کے دلوں میں ایک ہی خواہش نے ایک ساتھ جنم لیا تھا، ساس سسر نے پہلے اشاروں کنایوں میں اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور پھر کھل کر اس کے سامنے اپنی بات رکھ دی۔
“سائرہ، دیکھو بیٹا، تمھاری اور جمیل کی شادی کو اب کتنا وقت ہوگیا ہے، میں اور جمیل کے ابا اب اپنے پوتے پوتی کو اس آنگن میں کھیلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ “سائرہ ساس کی بات پر صرف سر ہلا کر رہ گئی۔ پھر یہی بات انھوں نے جمیل کے گوشِ گزار بھی کردی۔وقت اپنی رفتار سے گزر رہا تھا،مگر ابھی تک کسی کو وہ خبر نہ ملی جس کا سب کو انتظار تھا۔ ایک اور سال گزر گیا ، اور اس ایک سال میں بہت کچھ بدل گیا تھا، ساس سسر کے رویوں میں واضع تبدیلی آچکی تھی، نند اور دیور بھی کٹے کٹے رہنے لگے تھے۔ مگر جمیل ابھی بھی ان سب میں شامل نہیں تھا۔
گھر میں پچھلے کچھ دنوں سے کچھ سرگوشیاں ہورہی تھیں، کچھ نا کچھ تو کھچڑی پک رہی تھی، ساس سسر اور نند بیٹھ کر باتیں کرتے اور سائرہ کے آجانے پر خاموش ہوجاتے۔اسے ان کے رویوں میں تبدیلی کا سبب تو معلوم تھا مگر ان سرگوشیوں کے پیچھے کا راز ابھی اس تک پہنچا نہ تھا۔ اور نہ ہی وہ یہ راز جاننے میں دلچسپی رکھتی تھی، جمیل اس کے ساتھ خوش تھا اس کے لیے بس یہی کافی تھا۔ مگر آہستہ آہستہ جمیل کے رویے میں بھی بدلائو آنے لگا، وہ اب سائرہ سے زیادہ بات نہ کرتا ،کام ہوتا تو بات کر لیتا ورنہ خاموش رہتا، سائرہ کہیں جانے کی بات کرتی تو انکار کر دیتا، اور اکثر اسے بلا وجہ ہی ڈانٹ دیتا۔ باقی گھر والوں کے بدلے تیوروں نے اسے اتنا پریشان نہ کیا تھا جتنا اسے جمیل کے برتائو نے کیا تھا۔وہ اکثر جمیل کو دیکھتی اور سوچتی کہ یہ وہ ہی شخص ہے جو اس سے بے انتہا محبت کرتا تھا تو پھر اب اسے کیا ہوگیا تھا۔ اور پھر جلد ہی سب کچھ اس پر واضع ہو گیا تھا۔ اس دن وہ اپنی ساس کے لیے چائے لے جارہی تھی کہ جب کمرے سے آتی آوازیں اس کی سماعتوں سے ٹکرائیں تھیں۔
“نہیں جمیل کے ابا۔۔۔ مجھے تو صائمہ کی بیٹی پسند ہے ، میں تو سوچ رہی ہوں کہ اس سے ہی رشتہ پکا کر دیں” “وہ تو ٹھیک ہے ، مگر جس نے شادی کرنی ہے اس سے تو پوچھ لو کہ صائمہ کی لڑکی سے کرے گا، یا آسیہ کی بیٹی سے۔” سائرہ کو لگا کہ اندر اس کے دیور کی شادی کی بات چل رہی ہے۔ دیور کی شادی کے خیال سے اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
“ارے آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں، مجھے پتہ ہے جمیل کو صائمہ کی بیٹی پسند آئے گی اور ویسے بھی میں اب جس سے کہوں گی جمیل اسی
سے شادی کرے گا۔”
“جمیل۔۔۔جمیل کی شادی۔۔۔۔” سائرہ کو اپنی ساعتوں پر یقین نہ آیا، اچانک اس کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی، ہاتھ میں پکڑی ٹرے بھی گر گئی ، آنکھوں کے سامنے اندھیراچھا گیا اور وہ پورے قد کے ساتھ زمین پرگر گئی۔
آنکھ کھلی تو اس نے خود کو کمرے میں پایا، سامنے جمیل کرسی پر بیٹھا تھا، وہ خاموشی سے اٹھی اور یک ٹک اسے ہی دیکھے گئی، اسے اپنی طرف متوجی پاکر جمیل نے کہا۔
“کیا دیکھ رہی ہو۔” وہ کچھ دیر یونہی خاموش رہی پھر دھیرے سے بولی۔
“تمھارے چہرے میں اس شخص کو تلاش کر رہی ہوں جس سے مجھے محبت تھی۔”
“جمیل۔۔۔۔ کیا وہ محبت ختم کوگئی، جو تم مجھے چھوڑناچاہ رہے ہو،”
“بولو جمیل۔۔۔۔ آخر کیوں کرنا چاہتے ہو تم دوسری شادی، بولو جمیل۔۔۔ بولو نا”۔ وہ اسکا ہاتھ تھامے اس ہلارہی تھی۔جمیل نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
“سائرہ۔۔۔۔ میں اب بھی تم سے محبت کرتا ہوں، میں تمھیں چھوڑ نہیں رہا، مگر مجھے میرے ماں باپ کی خوشی بھی عزیز ہے، انھیں میری بے اولاد کا غم کھائے جارہاہے، یہ شادی میں صرف ان کی خوشی کے لیے کررہا ہوں۔ میں تنگ آگیا ہوں روز روز کے شکووں سے۔”
“مگر جمیل، اولاد دینا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے نا، پھر میں قصورقار کیوں؟ ” سائرہ، مجھے اس بارے میں اور بات نہیں کرنی۔ تمھیں خاموشی سے سب قبول کرلینا چاہئے۔” وہ کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا، اور وہ چہرا ہاتھوں میں چھپائے رونے لگی۔ کچھ اور وقت گزر گیا، سائرہ کو جمیل کی شادی کا غم ایسا لگا کہ وہ دل ہی دل میں روز روز مرنے لگی، وہ کسی طور بھی جمیل کی دوسری شادی نہیں دیکھ سکتی تھی، اس لیے اب وہ ناجانے کتنے ڈاکٹروں سے اپنا علاج کروانے لگی۔ اولاد کا ہونا نہ ہونااللہ پاک کے کام ہیںہم سب یہ بات جانتے ہیں۔ لیکن جب اس بات پر عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو ہم ایک مسلمان نہیں معاشرتی حیوان بن جاتے ہیں۔سائرہ علاج کے ساتھ ساتھ دن رات دعائیں بھی کرنے لگی کہ ایک نا ایک دن تو اس کی سنی جائے گی، اور پھر آخر کار رب نے اس کی سن لی۔اس کی کوکھ میں اولاد کا بیچ پنپنے لگا، پہلے تو گھر میں کسی کو اس کی بات کا یقین نہ آیا، سب کو لگا کہ شادی رکوانے کے لیے جھوٹ بول رہی ہے مگر جب ڈاکٹر کی رپورٹ آئی تو گھر میں کوشی کا سماں بندھ گیا، جمیل کی دوسری شادی روک دی گئی، ساس سسر جو خفا تھے وہ اسکی بلائیں لینے لگے، نند اس کے گلے میں باہوں کا ہار ڈالے جھومنے لگی، دیور خوشی سے گیت گانے لگا، اور جمیل۔۔۔۔ وہ تو خوشی سے پاگل ہی ہوگیا، اب وہ پہلے سے زیادہ سائرہ کا خیال رکھنے لگا، وہ پورا پورا دن آرام کرتی ساس اسے بیڈ سے اٹھنے نہ دیتی، نند پھل کاٹ کاٹ کر کھلاتی، اس کا دل گھبراتا تو جمیل اسے گھمانے لے جاتا۔سا س اور سسر اپنے پچھلے رویے پر نادم تھے اور انھوں نے دبے لفظوں میں اس کا اظہار بھی کیا تھا، نند اور دیور الگ بھابھی بھابھی کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔ سائرہ اتنی محبت ملتے ہی تمام گلے شکوے بھلابیٹھی۔ اب سب ہی خوش تھے، گھر میں آنے والے مہمان کے بارے میں باتیں ہوتی رہتی۔ گھر میں ہنسی مذاق چلتا رہتا۔نند کہتی “مجھے بھتیجی چاہیے ہم دوست بن کر رہیں گے،” دیور کہتا ” مجھے بھتیجا چاہیے”۔سب سائرہ کا خیال رکھ رہے تھے کوئی اسے کام کے قریب تک نہ آنے دیتا۔ شام کو جمیل گھر آتے ہوئے کھلونے اور سامان لے آیا۔یہ جوتا کس لیے لائے ہو، اس نے کون سا آتے ہی بھاگنے لگ جانا ہے۔” سائرہ کی ساس نے ہنستے ہوئے کہا تھا، جمیل نے جوتا لیا اور کہا “اماں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک لمحے میں میرے پاس دوڑتاہوا آئے گااور میرے سینے سے لگ جائے گا۔”
جمیل کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ جوتا اپنے سرہانے رکھ کر سونے لگا۔سائرہ بھی بہت خوش تھی، اسے اس کا جمیل واپس مل گیا تھا، دن گزرتے گئے، آخر وہ وقت آہی گیاجب اس ننھے مہمان نے اس دنیا میں آنا تھا۔ سائرہ کو ہاسپٹل لے جایا گیا۔آپریشن تھیٹر کے باہر سب رب کے حضوردعا میں مصروف تھے۔ لیکن رب کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ڈاکٹر باہرنکلے، سب بھاگ کر ان کے پاس گئے۔
“ڈاکٹر صاحب سائرہ کیسی ہے؟”
“بچہ کیسا ہے؟”
“بتائیں نا ڈاکٹر صاحب۔۔۔”
“دیکھیں میں معافی چاہتا ہوں۔ماں اور بچہ ۔۔ دونوں ہی نہ بچ پائے۔” یہ لفظ تھے یاصور پھونکا تھا، سارے گھر میں قیامت برپا ہوگئی۔ جمیل اپنا سب کچھ کھو بیٹھا، سائرہ کے جانے کا دکھ ایسا لگا کہ وہ اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھا، آج گلیوں کے اندر ایک شخص پاگلوں کی طرح گھومتا پھرتا ہے، اس کے گلے میں چھوٹی سی جوتی ہیاور گلے میں ایک کتبہ ہے، جس پر لکھا ہے۔۔۔۔ جوتا برائے فروخت۔۔۔ بہت قیمتی ہے جو کبھی پہنا ہی نہیں گیا۔