لاہور(ویب ڈیسک)وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے دوست ممالک کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں کبھی وہ سعودی عرب کے شاہی خاندان سے ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں چند ارب ڈالر پارک کرنے ،ادھار تیل فراہم کرنے اور گوادر آئل ریفائنری سمیت مختلف منصوبوں میں
سرمایہ کاری کی ترغیب دیتےنظر آتے ہیں تو کبھی وہ شی چن پنگ کو قائل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ، پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے وزیر اعظم اپنی سرشت کے برعکس کبھی چینیوں سے مزید سرمایہ کاری کی درخواست کرتے ہیں تو کبھی متحدہ عرب امارات کے سلطان کوپاکستان کا ہاتھ تھامنے کی التجا کرتے ہیں، کبھی ملائیشیا کے مہاتیر محمد کو پشت پہ کھڑا ہونے پر راضی کرنے کیلئے اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں تو کبھی کوالالمپور اور اسلام آباد کے درمیان ویزے جیسی پابندیوں کے خاتمے جیسے غیر معمولی اقدامات کی نوید سناتے ہیں۔ پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالنے کیلئے عمران خان جو ہاتھ پائوں مار رہے ہیں اس پر انہیں اپنے ہم وطنوں سےطعنے بھی سننے کو مل رہے ہیں، ان کو خود کشی جیسے پرانے بیانات یاد دلا کرطعنے دیئے جا ر ہےہیں لیکن اپنی دھن کے پکے کپتان کو یقین کامل ہے کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان نہ صرف معاشی طور پر خود کفالت کی منزل حاصل کر لے گا بلکہ دنیا کے دیگر ممالک پاکستان سے قرضے حاصل کیا کریں گے۔ یہاں یہ بحث نہیں کرتے کہ پاکستان کو فوری طور پر ادائیگیوں کے توازن
کو بہتر بنانے کیلئے وزیر اعظم کے حالیہ دوروں کے دوران کیا حاصل ہوا اور کیا نہیں ، سعودی عرب نے امداد دینے کی بجائے صرف تین ارب ڈالرز بطور زر ضمانت رکھوانے پر رضا مندی کیوں ظاہر کی ،چین جیسے دوست ملک نے یہ کیوں باور کرایا کہ اس نے اٹھارہ افریقی ممالک میں اس قدرمجموعی سرمایہ کاری نہیں کی جتنی پاکستان میں کر چکا ہے ، ہم صرف یہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ وزیر اعظم پاکستان کی اسی بھاگ دوڑ کا ثمر ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی کے ایوان میں اعلان کیا ہے کہ حکومت نے اقتصادی بحران پر قابو پا لیا ہے اور اب آئی ایم ایف سے فوری معاہدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اب یہ معاہدہ پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے آسان شرائط کی صورت میں ہی کیا جائے گا۔ ملکی معیشت کو درست ڈگر پر ڈالنے کیلئے وزیر اعظم کے پے در پے دورے اور دوست ممالک سے تعاون طلب کرنا سب کچھ بجا لیکن ان دوروں کا ایک دوسرا بہت اہم پہلو بھی ہے جس کی نشان دہی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کرتے ہوئے جناب عمران خان پر سخت تنقید کی جا رہی
ہے۔اپوزیشن رہنمائوں کو وزیر اعظم پاکستان کے بیرونی۔۔۔ممالک کے دوروں کے دوران ملک میں کرپشن کا ذکر کرنے، اس کو اپوزیشن سے نتھی کرنے اور اپوزیشن کو جیل بھیجنے کی دھمکیاں دینے پرسخت تحفظات ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ بالخصوص چین اور ملائیشیا کے دوروں کے دوران پاکستان کی منظر کشی ایک ایسے ملک کے طورپر کی جہاں ہر طرف بد عنوانی ، لوٹ مار، کک بیکس، کمیشن اور رشوت خوری کا بازار گرم ہے۔وزیر اعظم کے بیرون ممالک دوروں میں دئیے گئے ان بیانات پر اپوزیشن سیخ پا ہے، اپوزیشن رہنمائوں نے وزیر اعظم کے اس طرز عمل کو سفارتی آداب کے بھی منافی قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو یہاں تک دھمکی دے ڈالی ہے کہ اگر عمران خان نے اپنا یہ لب ولہجہ ترک نہ کیا تو وہ بھی آہنی زبان استعمال کرتے ہوئے دنیا کو بتائیں گے کہ انہیں کیسے اقتدار میں لایا گیا ہے اور ان کی حکومت بنانے کیلئے کیسے ووٹ چوری کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی وزیر اعظم کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ آمروں کو بھگتا چکے ہیں
اس لئے خان صاحب انہیں ایسی دھمکیاں دے کر ڈرا نہیں سکتے۔ خان صاحب کے جو لوگ نزدیک ہیں ان کے مطابق وزیر اعظم کو ایمان کی حد تک یقین ہے کہ پاکستان کے موجودہ مسائل خصوصاًمعاشی چیلنجز کے ذمہ دار سابق حکمران ہیں اور جب تک ان کا احتساب نہیں ہوتا اور ملک کی لوٹی دولت واپس نہیں لائی جاتی تب تک پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق جب آپ دنیا کو اپنے مسائل کے بارے میں بتاتے ہیں تو ان کی وجوہات سے بھی آگاہ کرنا ضروری ہے اس لئے خان صاحب بغیر لگی لپٹی سب کچھ ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ وزیراعظم کی صاف گوئی اپنی جگہ لیکن اس معاملے کے دوسرے پہلوکو بھی مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے کرپشن ،لوٹ مار اور اپوزیشن کو مورد الزام ٹھہرانے کی زیادہ تر باتیں چین اور ملائیشیا میں کیں لیکن بصد ادب جن چینی دوستوں کے سامنے وہ پاکستان کو ایک بد عنوان ملک بنا کر پیش کر رہے تھے اس وقت ان کا سب سے بڑا مسئلہ بھی کرپشن ہی ہے ، چینی صدر شی چن پنگ کی گزشتہ چھ سال سے وسیع پیمانے پہ جاری انسداد بد عنوانی مہم اور ہزاروں سرکاری حکام اور عہدیداران کو گرفتار کرنے، سینکڑوں چینیوں کو کرپشن کا جرم ثابت ہونے پہ سزائے موت دینے کے باوجود ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ 2017کے مطابق چین کا اسکور صرف 39سے 41 تک دو درجے بہتر ہوا ہے۔ آج بھی چین میں سالانہ 50 اعلیٰ عہدیداران کو کرپشن پر حراست میں لیا جاتا ہے، آج بھی ملائیشیا کا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی درجہ بندی میں 47 پوائنٹس کے ساتھ 62 واں نمبر ہے جو زیادہ کرپشن کی نشان دہی کرتا ہے۔وزیر اعظم صاحب آپ کی خود ستائشی، صاف گوئی اور پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے دعوے بہت بجا لیکن خدارا یہ بھی ذہن میں رہے کہ دنیا اپنے گندے کپڑے بیچ چوراہے میں دھونے والے کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھا کرتی۔