بیجنگ: چین نے اقوام متحدہ کی جانب سے نئی پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد شمالی کوریا سے لوہے، خام لوہے اور سمندری غذا کی درآمد روک دی۔
چین کی طرف سے فیصلے کا اعلان امریکا اور شمالی کوریا کی حکومتوں کے درمیان کئی روز سے جاری لفظی گولہ باری اور کشیدگی بڑھنے کے بعد کیا گیا۔ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ حکومتوں کے درمیان اس کشیدگی نے عالمی سطح پر تشویش و خدشات کو جنم دیا ہے۔ امریکا کی جانب سے چین پر اس کے پڑوسی ملک شمالی کوریا کو اس کی حدود میں رکھنے کے لیے ناکافی اقدامات کے الزام کے بعد بیجنگ نے نئی پابندیوں کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔شمالی کوریا اپنی اقتصادی بقا کے لیے چین پر بہت انحصار کرتا ہے۔ چینی وزارت تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ منگل سے شمالی کوریا سے لوہے، خام لوہے اور سمندری غذا کی درآمد پر مکمل پابندی ہوگی۔ چین، فروری میں شمالی کوریا سے کوئلے کی درآمد پر بھی پابندی عائد کرچکا ہے۔اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے6 اگست کو پیانگ یانگ کے خلاف سخت پابندیوں کی منظوری دی تھی، جس سے شمالی کوریاکو سالانہ ایک ارب ڈالر کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
شمالی کوریا پر یہ پابندی گزشتہ ماہ 2 بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تجربوں کے ردعمل میں عائدکی گئی تھی، جس کے بعد کم جونگ نے دھمکی دی تھی کہ ان کا ملک اب امریکا کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنا سکتا ہے تاہم چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ان کا ملک یقینی طور پر نئی پابندیوں کو مکمل طور پر نافذ کرے گا۔ دریں اثنا شمالی کوریا کے میزائل حملے کا خدشہ امریکی جزیرے گوام میں اینٹی میزائل سسٹم الرٹ کر دیا گیا۔ گوام میں ایک لاکھ 70ہزار امریکی شہری رہائش پذیر ہیں۔ گوام شمالی کوریا سے2ہزارکلومیٹر دور واقع ہے۔اگر شمالی کوریا کی جانب سے میزائل داغا گیا تو امریکا کے پاس چار حصار ہیں۔جبکہ امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا ہے کہ اگر شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام کو روکنے میں سفارتی اور پابندیوں پر مبنی حکمت عملی ناکام ہوئی تو امریکا فوجی امکانات کے لیے بھی تیاری کر رہا ہے۔
ادھر امریکا کے تحقیقاتی گروپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا شاید ایک آبدوز سے بیلسٹک میزائل ایس ایل بی ایم داغنے کی تیاری کر رہا ہے۔دریں اثنا امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے جزیرہ نما کوریا کی صورت حال سے متعلق ٹیلیفون پر گفتگو کی ۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق وائٹ ہاؤس کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے شمالی کوریا اور اس کی جانب سے متعدد بار اشتعال انگیز اقدامات کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔گفتگو میں دونوں صدور نے گزشتہ ہفتہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی قرارداد پر مکمل عمل درآمدکے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک وڈیو سامنے آئی ہے جس میں گْوام جزیرے کے گورنر کے ساتھ اْن کی ٹیلیفونک گفتگو سنی جا سکتی ہے۔
امریکی ٹی وی کے مطابق اس بات چیت میں ٹرمپ نے جزیرے کے گورنرکو اطمینان دلاتے ہوئے کہا کہ وہ شمالی کوریا کی جانب سے دی گئی دھمکیوں سے ہر گز پریشان نہ ہوں۔وڈیو میں گْوام جزیرے کے گورنر اپنے موبائل فون کے اسپیکر کے ذریعے امریکی صدر ٹرمپ کی گفتگو سنتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس موقع پر ٹرمپ نے باور کرایا کہ وہ جزیرے اور اس پر بسنے والے افراد (1.63 لاکھ) کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں۔
جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کے بعد برطانوی اپوزیشن نے حکومت پر امریکی صدر کی اندھی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ جزیرہ نما کوریا میں امریکا کے ساتھ مشترکہ جنگ میں بھی شرکت نہ کرے۔ برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر جرمی کوربین نے امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان ممکنہ جنگ کے بارے میں کہا کہ امریکا کی جنگ پسند اور غیرمستقل مزاج حکومت کی اندھی وفاداری کے سلسلے میں کوئی سوال باقی نہیں رہ گیا اور حکومت برطانیہ کو کسی بھی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہئے-جبکہ یوکرائن نے اس خبر کی تردید کی ہے کہ اْس نے کبھی بھی میزائل ٹیکنالوجی یا اْس کے حوالے سے معلومات یا کسی قسم کے پرزے شمالی کوریا کو فراہم کیے ہیں۔
علاوہ ازیں امریکا کے معتبر اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ شمالی کوریا نے میزائل میں استعمال ہونے والے راکٹ انجن امکاناً یوکرائن میں قائم ایک فیکٹری سے خریدے ہیں۔ اس اخباری خبر کے جواب میں یوکرائن کی سیکیورٹی اور ڈیفنس کونسل کے سیکریٹری اولیکزانڈرٹْرشینوف نے تردیدی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کو راکٹ انجن کبھی بھی فراہم نہیں کیے گئے۔