شان و شوکت اور وقار
ٹیراکوٹا آرمی مغربی چینی شہر شیان کے قریب سے دریافت ہوئی تھی۔ یہ چین کے پہلے شہنشاہ کن شیہوانڈی کی قبر کے احاطے کا حصہ تھا۔ اندازہ ہے کہ ٹیراکوٹا آرمی شہنشاہ کے مرنے کے بعد اس کی اور اس کی قبر کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی۔
عالمی ثقافتی ورثہ
ٹیراکوٹا آرمی کے مجسمے ایک عام انسان کے قد کے برابر ہیں اور مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔ آج کل انہیں تین مختلف مقامات پر رکھا گیا ہے۔ ان میں صرف جنگجو ہی نہیں ہیں بلکہ گھوڑے اور جنگ میں استعمال ہونے والی گھوڑا گاڑیاں بھی ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ان مجسموں کی تیاری میں کم از کم سات لاکھ کاریگروں نے حصہ لیا ہو گا۔1987ء میں ٹیراکوٹا آرمی کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔
مسلح بری فوج
ٹیراکوٹا آرمی کا مرکزی یونٹ فوجیوں کے ایک ہزار مجسموں پر مشتمل ہے اور یہ دو فٹ بال اسٹیڈیم کے رقبے کی برابر کی جگہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں پیدل اور گھڑ سوار فوجی بھی شامل ہیں۔ ان کی وردیوں سے ان کے عہدے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
رنگ برنگی فوجی
ان میں سے بہت سے مجسمے مختلف قسم کے رنگوں سے آراستہ ہیں۔ طویل عرصے تک زمین کے نیچے دبے رہنے کے بعد جب ہوا سے ان کا رابط ہوا تو بہت کم ہی عرصے میں ان کے اصل رنگ غائب سے ہو گئے۔ 1990ء کی دہائی میں کھدائی کا کام روک دیا گیا تھا، جسے اب جون 2015ء میں دوبارہ سے شروع کیا گیا ہے۔
چار گھوڑوں والی رتھ
1980ء میں کھدائی کے دوران چار گھوڑوں والی دو گاڑیاں بھی ملیں، جن پر سونے اور چاندنی کی نقش و نگاری موجود تھی۔ ان دونوں رتھوں میں سے ہر ایک کا وزن تقریباً 1.2ٹن ہے۔ دوسری رتھ مکمل طور پر ڈھکی ہوئی ہے اور اسے شہنشاہ کے نجی گھوڑا گاڑی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
دنیا کا آٹھواں عجوبہ
فرانس کے سابق صدر ژاک شیراک نے 1978ء میں چین کے اپنے دورے کے دوران ٹیراکوٹا آرمی کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا تھا۔ اسی طرح جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو 2010ء میں جنگجوؤں کے ان مجسموں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا ’’ ان مجسموں سے مجھے خوف محسوس ہوا تھا‘‘۔
کسان عجائب گھر کا سربراہ
چین میں آثار قدیمہ کی اس سب سے بڑی دریافت کا سہرا کسان زاؤ کنگمین کے سر جاتا ہے۔ اسے بعد ازاں ٹراکوٹا آرمی میوزیم کا نگران بھی بنا دیا گیا تھا۔ اس دریافت کے بدلے میں اسے کلائی پر پہننے والی ایک گھڑی اور ایک سائیکل دی گئی تھی۔