بیجنگ: چین نے گزشتہ روز اپنے دو خلاء نورد ’’شین ژو-11 اسپیس کرافٹ‘‘ کے ذریعے خلاء میں بھیج دیئے، جو آئندہ 30 روز تک چینی خلائی تجربہ گاہ ’’تیانگوگ-2‘‘ میں قیام پذیر رہیں گے۔
چین کی جانب سے بھیجے گئے خلا نورد ،خلائی تجربہ گاہ میں پودے اُگانے سے لے کر مختلف خصوصی آلات کی جانچ پڑتال تک کئی تجربات انجام دیں گے۔
چین کے نکتہ نگاہ سے یہ بڑا قدم ہے کیونکہ اس سے پہلے چینی خلاء نورد صرف پندرہ دن تک ہی خلاء میں قیام کرچکے ہیں۔ انسان بردار چینی پروازوں کا سلسلہ 15 اکتوبر 2003 سے شروع ہوا اور 17 اکتوبر 2016 تک 6 انسان بردار چینی خلائی پروازیں بھیجی جاچکی ہیں، جو سب کی سب کامیاب رہیں۔ ان پروازوں کے ذریعے اب تک 11 چینی خلاء نورد، خلاء میں بھیجے جاچکے ہیں۔
17 اکتوبر 2017 کی خلائی پرواز میں شامل جِنگ ہیپنگ نے سب سے زیادہ یعنی تین مرتبہ خلاءمیں جانے والے چینی خلاء نورد کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔
چین کا منصوبہ ہے کہ 2022 تک اپنا قومی خلائی اسٹیشن مکمل طور پر مدار میں پہنچادیا جائے جس کےلئے ضروری ہے کہ خلاء نوردوں کے خلاء میں قیام کی مدت بتدریج بڑھائی جائے۔ اس چینی خلائی اسٹیشن کو ’’تیانگونگ-2‘‘ خلائی تجربہ گاہ کے ساتھ مزید ماڈیولز جوڑنے کے بعد مکمل کیا جائے گا۔
امریکہ اور سابق سوویت یونین کے بعد اب چین پوری شدت سے دنیا کی بڑی خلائی طاقت بننے کی طرف گامزن ہے۔ چاند پر اپنا پہلا خودکار مشن ’’جیڈ‘‘ بھیجنے کے بعد وہ 2018 میں چاند کے مخالف رُخ پر اپنا دوسرا خودکار خلائی جہاز اتارے گا۔ 2020 تک چینی خلائی ایجنسی مریخ کی طرف اپنا پہلا متحرک ’’روور‘‘ مشن بھیجے گی جبکہ 2025 تک چاند پر بھیجنے کےلئے پہلا انسان بردار چینی خلائی مشن بھی اس کے منصوبوں میں شامل ہے۔
واضح رہے کہ عام طور پر امریکی خلاء نوردوں کو ’’ایسٹروناٹ‘‘، روسی/ سوویت خلاء نوردوں کو ’’کوسموناٹ‘‘ جبکہ چینی خلاء نوردوں کو ’’تائیکوناٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔