چین نے ہانگ کانگ میں گزشتہ برس سے جاری مظاہروں اور بد امنی کے سدِ باب کے لیے قومی سلامتی سے متعلق نیا قانون بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن امریکہ نے چین کو تنبیہ کی ہے کہ وہ کسی بھی ایسی قانون سازی سے باز رہے۔
چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کے ترجمان ژانگ یوسوئی کا کہنا ہے کہ قانون سازی کی تفصیلات جمعے کو جاری کی جائیں گی جب چین کی نیشنل کانگریس کا سالانہ اجلاس شروع ہو گا۔اُنہوں نے کہا کہ ہانگ کانگ کی صورتِ حال کے پیشِ نظر نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) اپنی آئینی طاقت استعمال کرتے ہوئے ہانگ کانگ سے متعلق نیا لیگل فریم ورک تیار کرے گی تاکہ وہاں قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز حلقوں کو خدشات ہیں کہ چین مجوزہ قانون سازی کے ذریعے ہانگ کانگ کی خود مختاری سلب کرنا چاہتا ہے جس کی ضمانت ‘ایک ملک دو نظام’ کے فارمولے کے تحت اسے حاصل ہے۔
جمعرات کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر چین نے ہانگ کانگ پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کی کوشش کی تو امریکہ ایسے کسی بھی اقدام پر سخت ردِ عمل دے گا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق امریکی صدر رواں سال صدارتی انتخابات میں چین مخالف بیانیے کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔ لہذٰا وہ چین سے متعلق سخت مؤقف اپناتے رہیں گے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے بھی چین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کی خود مختاری اور انسانی حقوق کا احترام کرے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے ہانگ کانگ سے متعلق نئی قانون سازی سے یہاں مظاہروں کا نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
ملزمان کی چین حوالگی کے مجوزہ قانون پر بھی گزشتہ برس ہانگ کانگ میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے۔ ہانگ کانگ طویل عرصے تک برطانیہ کے کنٹرول میں رہا ہے جس میں اسے بڑے پیمانے پر خود مختاری حاصل تھی۔ تاہم معاہدے کے مطابق برطانیہ نے 1997 میں ہانگ کانگ کا کنٹرول چین کے حوالے کر دیا تھا۔ مظاہرین کو خدشہ تھا کہ چین میں انسانی حقوق اور نظامِ انصاف میں نقائص کے باعث ہانگ کانگ میں جرم کے مرتکب افراد کے چین میں ٹرائل سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ امریکہ بھی اس معاملے پر ہانگ کانگ کے مظاہرین کا حمایتی رہا ہے۔ بلکہ گزشتہ سال مظاہرین نے امریکی پرچم تھام کر ہانگ کانگ میں امریکی قونصلیٹ کے باہر بھی احتجاج کیا تھا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس ہانگ کانگ سے متعلق ‘ہانگ کانگ ہیومن رائٹس اینڈ ڈیمو کریسی ایکٹ’ کی منظوری دی تھی۔ ایکٹ میں محکمۂ خارجہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ یہ تعین کرے کہ آیا ہانگ کانگ کو اتنی خود مختاری حاصل ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی مراسم رکھ سکے۔
اگر محکمۂ خارجہ امریکی صدر کو یہ سفارش کر دے کہ ہانگ کانگ کو خود مختاری حاصل نہیں تو پھر بھی یہ امریکی صدر پر منحصر ہو گا کہ وہ اس کے ساتھ تجارتی روابط برقرار رکھتے ہیں یا نہیں۔ امریکی سینیٹ میں حکمراں جماعت ری پبلکن اور حزبِ اختلاف ڈیمو کریٹک پارٹی کے اراکین نے بھی ہانگ کانگ سے متعلق ایکٹ کو مزید فعال بنانے کے لیے قانون سازی کا عندیہ دیا ہے۔ سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے لیڈر مچ میکونل کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے ہانگ کانگ میں سخت اقدامات پر امریکی سینیٹ امریکہ اور چین کے تعلقات کا ازسرِ نو جائزہ لے گی۔
ہانگ کانگ حکام کا کہنا ہے کہ تاحال اُن کے پاس مجوزہ قانون سازی کی تفصیلات نہیں ہیں۔ البتہ ہانگ کانگ کے ذرائع ابلاغ کے مطابق مجوزہ قانون میں مرکزی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی غرض سے علیحدگی پسند مظاہروں، غیر ملکی مداخلت، دہشت گردی اور ملک دشمن سرگرمیوں پر مکمل پابندی کی شقیں شامل ہیں۔ ترجمان امریکی محکمۂ خارجہ مورگن آرٹگس کا بھی جمعرات کو ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ کے شہریوں کی اُمنگوں کے برعکس کوئی بھی قانون سازی خطے میں عدم استحکام کو بڑھاوا دے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ کی خصوصی حیثیت ختم ہونا وہاں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں اور 85 ہزار شہریوں کے لیے بڑا دھچکا ہو گا۔ مورگن آرٹگس کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ میں لگ بھگ 1300 امریکی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ اس سے قبل 2003 میں بھی ایسی ہی قانون سازی کی کوشش کی گئی تھی، لیکن ہزاروں افراد کے مظاہروں کے بعد چین نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا۔