چین کے پراسیکیوٹر جنرل آفس کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کینیڈا کے سابق سفارت کار مائیکل کوورگ اور بزنس مین مائیکل اسپاور کے خلاف دوسرے ملک کے لیے جاسوسی اور سرکاری راز فراہم کرنے کے الزام میں قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔کرونا وائرس کی وجہ سے دونوں کینیڈین شہریوں کو ہر مہینے ملنے والی قونصلر رسائی گزشتہ چند ماہ سے معطل تھی۔ اپریل میں کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹس ٹروڈو نے اپنے دونوں شہریوں کی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔ لیکن چین کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دونوں کی صحت اچھی ہے اور وہ خیریت سے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق دسمبر 2018 میں چین کی ٹیکنالوجی کمپنی ‘ہواوے’ کی چیف فنانشل ایگزیکٹو مینگ وانژو کی امریکی وارنٹ پر کینیڈا میں گرفتاری کے بعد چین نے ان دونوں شہریوں کو حراست میں لیا تھا۔ چین کے پراسیکیوٹر جنرل نے یہ فیصلہ گزشتہ ماہ کینیڈا کی عدالت کی جانب سے مینگ وانژو کے خلاف امریکہ میں مقدمہ چلانے کے فیصلے کے بعد سنایا ہے۔ امریکہ کا یہ اصرار رہا ہے کہ ایران پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی پر مینگ وانژو کے خلاف امریکہ میں مقدمہ چلنا چاہیے۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ ٹیلی کام مصنوعات تیار کرنے والی کمپنی ‘ہواوے’ نے ایران سے متعلق امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔مینگ وانژو کی گرفتاری اور اس کے ردِ عمل میں کینیڈین شہریوں کو حراست میں لیے جانے پر کینیڈا اور چین کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی متاثر ہوئی تھی۔ کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں چینی سفارت خانے نے الزام لگایا تھا کہ مینگ وانژو کی گرفتاری کے ذریعے امریکہ ‘ہواوے’ کمپنی کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ چین نے ردعمل کے طور پر کینیڈا سے اربوں ڈالر کی زرعی درآمدات بھی روک دی تھیں۔ معاملے پر نظر رکھنے والے ذرائع نے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کو بتایا ہے کہ کینیڈین شہریوں سے گھنٹوں تحقیقات کی گئیں اور گرفتاری کے چھ ماہ بعد تک اُنہیں تیز روشنی میں سونے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ چین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک وکیل نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ دونوں کا ٹرائل خفیہ مقام پر ہو گا اور دفاع کے لیے اُنہیں سرکاری وکیل کی ہی خدمات حاصل ہوں گی۔ چین نے کینیڈا سے مطالبہ کیا تھا کہ مینگ وانژو کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ لیکن کینیڈا کے وزیرِ اعظم نے مئی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ چین کو آزاد عدلیہ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ کینیڈا کے وزیرِ خارجہ فرانسوا فیلپ شیمپانی نے کہا تھا کہ وہ اپنے شہریوں کی رہائی یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہے گا جو 500 روز سے چین کی قید میں ہیں۔