لاہور: لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد سمیت اہم شہروں میں چینی شہریوں کی پاکستانی خواتین سے شادیوں اور ان سے چین میں زبردستی جسم فروشی کرانے اور اعضافروخت کرنے کی خبریں بڑے ایشوز کے طور پر سامنے آ رہی ہیں ،اچھا ہوا چینی حکومت نے مذکورہ خبروں کا بروقت نوٹس لیا
تجزیہ کار سلمان غنی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہتے ہیں۔۔۔ اور مذکورہ مذموم عمل پر پاکستانی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے ٹاسک فورس بھجوانے کا اعلان کیا ، یہ ضرورت بھی ہے ۔ایک طرف شکایات کا جائزہ لینا ضروری ہے تو دوسری جانب یہ بھی کھوج لگانا پڑے گا کہیں کوئی تیسرا فریق تو پاک چین تعلقا ت پر اثر انداز نہیں ہو رہا؟ کیونکہ ماضی میں پاکستان کے دشمن خصوصاً ہندوستان اور بعض عالمی قوتیں سی پیک کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اس پر اثر انداز ہونے کیلئے کوشاں رہی ہیں۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ پاک چین تعلقات سی پیک کا معاہدہ بعض عالمی قوتوں اور ان کے علاقائی آلہ کاروں کو ہضم نہیں ہو پا رہا اور وہ غیر علانیہ طور پر اس پر اثر انداز ہونے کے لیے کوشاں رہے اور ہیں۔ جس کا ایک بڑا ثبوت حال ہی میں شادی کے مذکورہ واقعات کو بھارت، سی پیک میرجز( شادیاں) کا نام دیکرایک پراپیگنڈا کا طوفان اٹھائے ہوئے ہے ۔ جو ان کی پاکستان دشمنی کے ساتھ بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے ۔ لہٰذا چین کو اس حوالے سے الرٹ ہونے اورپاکستان کو بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔ مذکورہ واقعات اگر کسی منظم سلسلہ کا حصہ نہیں بھی ہیں تو اس کے اثرات دو طرفہ تعلقات پر اثر انداز ہونے کے ساتھ سی پیک کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔
چینی شہریوں کے حوالے سے آنے والی شکایات اور درج شدہ مقدمات سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ زبردستی شادیوں اور اعضا بیچنے کا یہ عمل صرف پنجاب تک محدود ہے ،فی الحال لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالا، شیخوپورہ، ملتان میں چینی گروہ متحرک ہوئے اور ان کے خلاف شکایات پر مقدمات کئے جا چکے ہیں۔ یہ چینی گروہ زیادہ غریب لوگوں کی بچیوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اچھے مستقبل کا جھانسہ دے کر پھنساتا تھا۔ کچھ سے شادیاں کر کے اور کچھ کو بڑی رقوم دے کر چین بھجوایا جاتا تھا۔ ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل احمد میو نے ان واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا بنیادی طور پر اس میں سہولت کار پاکستانی ہی تھے ۔ ایک وکیل، ایک پادری اور ایک مترجم کو ساتھ ملا کر یہ مذموم عمل پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ اس مقصد کے حوالے سے زیادہ تر مسیحی خواتین کو ٹارگٹ کیا جاتا تھا لیکن اب تک کی تحقیقات میں غریب مسلمان خواتین بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ جہاں تک پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کا سوال ہے تو یہ تعلقات تاریخی جغرافیائی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور پاکستان ہمیشہ چین کو اپنے قابل اعتماد ، مخلص اور پر جوش دوست قرار دیتا رہا ہے اور سی پیک کے معاہدے سے اس کے درمیان معاشی اور اقتصادی رشتوں کو مزید مضبوط کیا لیکن یہ اچھا عمل آگے بڑھا تو اس کے مضر اثرات معاشرتی صورتحال پر پیدا ہونا شروع ہوگئے کیونکہ دوستانہ تعلقات کے باوجود پاکستان اور چینی عوام کے درمیان معاشرتی اور مذہبی اقدار مشترکہ نہیں جن کے باعث اب یہ شکایات پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔ دشمن ممالک کی جانب سے پہلے مرحلہ پر حکومتی سطح پر پاکستان اور چین کے درمیان غلط فہمیوں کی کوشش ہوئی مگر دونوں ممالک نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ پھر سیاسی سطح پر غلط فہمیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش ہوئی، یہ ہتھکنڈا بھی بار آور ثابت نہ ہوا لہٰذا اب عوامی سطح پر غلط فہمیوں کیلئے مذکورہ ہتھکنڈوں پر مشتمل بیانیہ تشکیل پا رہا ہے اور اس میں جرائم پیشہ چینی باشندے اس مذموم عمل کا حصہ بنے ہیں۔
چین کی جانب سے آنے والی یہ وضاحت بھی بروقت ہے کہ جرائم میں ملوث افراد وزٹ ویزا پر آئے ہیں۔ ان کا سی پیک پر کام کے حوالے سے کوئی تعلق نہیں اور ان پراجیکٹس پر اپنے افراد کو خود ویزے جاری کرتے ہیں۔ مذکورہ شکایات پر پنجاب کے اقلیتی امور کے وزیر اعجاز عالم نے میڈیا کو بتایا پنجاب میں خود ساختہ پادری اور گرجا گھر شادیاں کرانے کے اس مذموم عمل میں ملوث ہیں۔ اسی لئے ہم نے لائسنس کا عمل شروع کیا ہے تا کہ اس طرح کی شکایات کا ازالہ ہو سکے ۔ چین اور پاکستان کی حکومتوں اور عوام کے درمیان دوستی، محبت کے رشتے اپنی جگہ لیکن اگر چینی باشندوں کی پاکستان میں غیر قانونی عمل کا حصہ بننے کا جائزہ لیا جائے تو اس طرح کی شکایات ماضی میں بھی سامنے آئیں خصوصاً لال مسجد کے واقعہ میں ایک چینی مساج سنٹر کا ذکر بھی نمایاں رہا۔ جہاں غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل پر جامعہ حفصہ کی خواتین نے شدید رد عمل ظاہر کیا تھا۔ بعد ازاں چینی انجینئرز کی جانب سے خانیوال میں 2018 میں پولیس اہلکاروں پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا جس پر پاکستان نے فوری طور پر انہیں ملک بدر کیا تھا۔