پہلے تو نتاشہ اپنے والدین کو بتا ہی نہیں سکی کہ اسے چین میں کیا کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ اس جیسی دیگر سات نوجوان پاکستانی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ ان سے جسم فروشی کرائی گئی۔ ان میں سے چار ابھی تک چین میں ہیں۔
انیس سالہ نتاشہ مسیح پہلے پہل تو ٹیلی فون پر اپنے والدین کو یہی کہتی رہی کہ اس کا خاوند اس پر تشدد کرتا ہے لہذا اسے واپس پاکستان بلا لیا جائے لیکن ایک دن وہ زور زور سے رونے لگی اور اس نے ہمت کرتے ہوئے اپنی والدہ کو تمام کہانی سنا دی۔ اس کے چینی خاوند نے اسے چین کے ایک دور دراز کے علاقے میں واقع ایک ہوٹل میں رکھا ہوا تھا اور اسے گزشتہ کئی ہفتوں سے مختلف مردوں کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ نتاشہ کے مطابق اس کے چینی شوہر کا کہنا تھا، ”میں تمہیں پاکستان سے خرید کر لایا ہوں اور اب تم میری ملکیت ہو۔‘‘
اس کے بعد نتاشہ کی والدہ نے ان قریبی افراد سے رابطہ کیا، جو اسے بچا سکتے تھے۔ ان میں فیصل آباد کے مضافات میں واقع ایک چھوٹے سے چرچ کی انتظامیہ بھی شامل تھی۔ نتاشہ کا بھی ان سینکڑوں پاکستانی لڑکیوں میں سے ایک ہے، جن کی شادیاں حالیہ چند برسوں کے دوران چینی مردوں سے کی گئیں۔ نیوز ایجنسی اے پی کی تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق اس طرح زیادہ تر مسیحی لڑکیوں کی باقاعدہ شادیاں ہوئیں، جس کے لیے مسیحی پادری اور چینی بروکر مل کر کام کرتے تھے۔
ایسے واقعات منظر عام پر آنے کے بعد سے پاکستانی ادارے بھی اپنی تحقیقات کا سلسلہ شروع رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے متعدد چینی اور پاکستانی شہریوں کو گرفتار بھی کر رکھا ہے۔ اپنی ایک تازہ رپورٹ نے نیوز ایجنسی اے پی نے پاکستان کی ایسی سات نوجوان لڑکیوں سے گفتگو کی ہے، جنہیں چین میں جسم فروشی پر مجبور کیا گیا تھا۔ ان میں سے چار ابھی تک چین ہی میں ہیں۔
پاکستانی لڑکیوں کے والدین کو یہی کہا جاتا تھا کہ ان کی بیٹیوں کی شادیاں امیر چینی شہریوں سے ہو رہی ہیں۔ اس طرح والدین کو اچھی خاصی رقم بھی ادا کی جاتی تھی لیکن تفتیش کاروں کے مطابق ان میں سے اکثر لڑکیوں سے جسم فروشی کروائی گئی۔ تحقیقات میں شامل ایک پاکستانی اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”جن لڑکیوں سے گفتگو کی گئی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان لڑکیوں کو اپنے خاندانوں کا بھی خوف تھا کہ وہ کوئی غلطی نہ کریں اور گھر والے انہیں ہی برا نہ سمجھیں۔
جدہ میں ایک بچی سے بدکاری کرنے والے تین لوگوں کا انجام👆🏻، پوراشہرلرزہ براندم
‘‘
اے پی کے مطابق سرکاری سطح پر پاکستانی حکام ابھی تک اس حوالے سے خاموش ہیں کیوں کہ بظاہر اسلام آباد حکومت چین کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتی۔ چین پاکستان میں اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستانی مسیحی کمیونٹی کے ایک کارکن سلیم اقبال کا کہنا تھا، ”ہم شواہد پیش کر رہے ہیں لیکن چین ابھی تک یہ ماننے سے انکار کر رہا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ پاکستان میں تعینات چینی سفیر کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی، جس میں ایک پاکستانی لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے خاوند کے ہمراہ ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہی ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی نے ٹیلی فون پر ایک دوسری لڑکی عروج سے بھی بات چیت کی ہے، جو ابھی تک چین میں ہی پھنسی ہوئی ہے۔ اس لڑکی کا بھی الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کا خاوند بہت زیادہ شراب پیتا ہے اور اسے اپنے دوستوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ کئی دیگر پاکستانی لڑکیوں کی طرح عروج کو ابھی تک یہ بھی نہیں معلوم کی وہ چین میں کس مقام پر رہ رہی ہے۔ بیجنگ اترنے کے بعد ان لڑکیوں کو ڈومیسٹک فلائٹس کے ذریعے دور دراز کے علاقوں میں لے جایا جاتا ہے۔
صوبہ پنجاب میں اقلیتوں اور انسانی حقوق کے صوبائی وزیر اعجاز عالم آگسٹن کا کہنا ہے کہ تقریباﹰ پانچ سو سے زائد پاکستانی لڑکیاں چین اسمگل کی گئیں لیکن سلیم اقبال کے مطابق ان لڑکیوں کی تعداد سات سو پچاس سے ایک ہزار کے درمیان ہے۔
چین اسمگل کی جانے والی ایک لڑکی سمیرا کا کہنا تھا کہ پہلے تو وہ کئی ماہ اس حوالے سے خاموش ہی رہی لیکن پھر اس نے تفتیش کاروں کو ساری معلومات فراہم کر دیں، ”میں نے اپنی خاموشی اس وجہ سے توڑی کہ شاید میری وجہ سے کسی دوسرے کا بھلا ہو جائے۔‘‘
سمیرا گوجرانوالہ میں اب ایک بیوٹی پارلر چلاتی ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا، ”میں بہت ہی خوفزدہ تھی، مجھے اپنے بھائیوں کا ڈر تھا۔ اب میں لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ جو میرے ساتھ ہوا ہے، وہ کسی دوسرے کے ساتھ نہ کریں۔‘‘
نتاشہ گزشتہ ہفتے ہی بیس برس کی ہوئی ہے۔ وہ پاکستانی تفتیش کاروں کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔ نتاشہ کا کہنا تھا، ”میں خوش قسمت ہوں۔ بہت سی لڑکیاں ابھی تک وہاں ہی ہیں اور ان کی زندگی بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہو گی۔ اب مجھے احساس ہوا ہے کہ غلامی اور آزادی میں کیا فرق ہے۔ وہاں میرے ساتھ غلاموں جیسا سلوک ہوتا تھا۔‘‘(بشکریہ بی بی سی)