تحریر: محمد عتیق الرحمن
سپہ سالار امن محترم جناب نسیم الحق زاہدی صاحب کے کالموں کا انتخاب ہے۔انتخاب کیا ہے بس زاہدی نے باغ سے پھول چن کر ایک کتابی شکل میں ہمارے سامنے لاکررکھ دیئے ہیں اور اس کا نام بھی ”سپہ سالار امن ،حضرت محمد ۖ” رکھ دیا۔اس کتاب میں میرے خیال سے زاہدی نے اپنی بہترین کاوشیں یکجا کردی ہیں۔میرا نسیم الحق زاہدی سے کوئی پرانا تعلق نہیں لیکن جب سے رابطہ ہواہے رابطہ قائم ودائم ہے اور یہ بڑھ رہاہے ۔زاہدی ایک ایسا نوجوان ہے جو گردوپیش میں ہونے والے واقعات کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اپنے سچے دل وجذبات پر پرکھتاہے۔زاہدی کی سب سے بہترین بات اپنی مذہبی وقومی روایات سے جڑے رہنا ہے۔میں نے جب پہلی دفعہ زاہدی کا کالم کسی سوشل ویب سائٹ پر پڑھا توتصوراتی صورت میں ایک ایسا کالم نگار سامنے آیا جس کی عمر کم ازکم ادھیڑ عمری کے قریب ہوچکی تھی۔لیکن جب دیکھا تو حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ میں اس راہ پراکیلا ہی مسافر نہیں ہوں مجھ سے پہلے بھی بہت سے نوجوان اس راہ سے گذرچکے ہیں جن میں سے زاہدی بھی ایک نوجوان ہے۔
زاہدی ایک محبت کرنے والا ،محبت چاہنے والا اور محبتوں کا متلاشی نوجوان ہے۔اسے اپنے مذہب وملت اور اپنے ملک کے معصوم وغریب لوگوں سے محبت ہے۔یہی وجہ ہے کہ کہیں کہیں اس کا قلم سخت ہوجاتا ہے لیکن یہ سختی اس کی ذاتی نہیں بلکہ اس محبت کی وجہ سے ہے جو اسے غریبوں سے ہے۔جہاں وہ سیاست دانوں ،حکومتی کارندوں اور رہنماؤں پر چوٹ کرنے سے نہیں چوکتا وہیں اسے پاکستان کے ذرے ذرے سے محبت وانس ہے۔وطن کے محافظوں پر وہ فخر کرتا ہے۔پاک افواج اور مسلح اداروں کے کارنامے اسے تقویت فراہم کرتے ہیں۔ زاہدی ہرقسم کے حالات میں ان جانثاروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی نہ صرف منادی دیتا ہے بلکہ خود بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔زاہدی ایک مذہب پسند نوجوان ہے اس کی تحریر کسی اسلامی واقعہ سے شروع ہوتی ہے اور تاریخی کوہساروں کی سیر کرواتی ہوئی قاری کو اسلام کے شاندار ماضی کی یاد دلاتے ہوئے حال میں کچھ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے اختتام پذیرہوجاتی ہے۔زاہدی قیام پاکستان کی تاریخ سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔اپنے اسلاف کے واقعات کی یاددلاتے ہوئے اپنے رویوں کو درست کرنے کی دعوت دیتا ہے۔زاہدی جہاں اپنی تحریروں میں مذہب کی پابندی کی بات کرتاہے وہیں اسلام کے لافانی وازلی اصولوں کی بھی بات کرتاہے جن میں انسانی حقوق پرزور دیاگیا ہے۔
زاہدی کا طرز تحریر باغیانہ ہے۔وہ بغاوت کرتا نظر آتا ہے فضول رسم ورواجوں سے ،وہ بغاوت کرتا ہے ان مولویوں سے جو دین کو ایک کاروبار سمجھتے ہیں ،وہ بغاوت کرتا ہے ان تعلیمی اداروں کے اساتذہ سے جو جدید تعلیم کے نام پر نئی نسل کو اسلام و پاکستان سے دور کررہے ہیں ،ان سب سے باغی ہونے کے باوجود جب وہ دیکھتا ہے کہ سامنے والا اسلام کا محب اور پاکستان کا محافظ ہے تو برملا اپنے کالم میں اس شخصیت کا ذکر دیتاہے۔زاہدی کی آئیڈیل شخصیت آپ کو اس کی تحریر میں جگہ جگہ نظر آئے گی۔ جس کے وہ حوالے دیتا نظر آئے گا۔یہ اس کی اپنے مذہب سے محبت ہے کہ وہ کسی اور شخصیت کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔نسیم الحق زاہدی اپنی تحریروں میں حالیہ دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کا اسلام جیسے امن پسند مذہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ان کی پیداوار ہے جو اسلام کی اشاعت سے پریشان ہوچکے ہیںاور کسی طرح یورپ وامریکہ میں اسلام کو بدنام کرنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔وہ جہاں ان سازشوں کا ذکر کرتاہے وہیں وہ مسلمانان عالم کو اتحاد ویکجہتی میں پڑونے کی بات کرتاہے اور انہیں اسلام کے پہلے دور کے واقعات سناتا ہے کہ کس طرح تمہارے آباؤ اجداد نے اسلام کی اشاعت کی تھی اور کس طرح انہوں نے یہودی ونصرانی سازشوں کا مقابلہ کیا تھا۔
نسیم الحق زاہدی” انسانی درندے” عنوان نامی کالم میںلکھتاہے کہ مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ تمام انبیائے کرام اور الہامی کتب کا اقرار اور تعظیم کرتے ہوئے پیغمبر امن حضرت محمد ۖپر ایمان لانا ہے اس لئے کوئی بھی مسلمان کسی بھی خون آشا م کاروائی کا حصہ نہیں بن سکتا۔مندرجہ بالا سطور زاہدی کے افکار وخیالا ت کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اسلام کا کس قدر مطالعہ کرتاہے اور موجودہ حالات کو اسلامی تناظر میں پرکھنے کا عادی ہے۔وہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ حالیہ دہشت گردانہ واقعات کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔اسلام تو پانی کے اسراف سے منع کرتا ہے تو کسی بے گناہ کاقتل اس میں کہاں سے جائز ہے۔وہ جہاں حالات کی سنگینیوں پر ماہرانہ رائے رکھتاہے وہیں ایک معالج کی طرح ان کا حل بھی پیش کرتا ہے۔نسیم الحق زاہدی جیسے نوجوان ہماری نئی نسل کا اثاثہ ہے۔حالات کے ظالمانہ تھپیڑوں کو سہتے ہوئے اس جیسے نوجوان اپنے مذہب وملت کی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں۔
تحریر: محمد عتیق الرحمن
03216563157