تحریر: صباء عیشل، فیصل آباد
الیکشن کے زمانے کی چہل پہل سے بھلا کون ناآشنا ہے۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ الیکشن کیا (بلا) ہوتی ہے۔ لوگ سال بھر الیکشن کا انتظار (اٹکے ہوئے کام نکلوانے کیلئے)کرتے ہیں۔وہ لوگ جو سال بھر سفید کلف زدہ سوٹ(چٹے پاپڑ جیسے کڑکڑاتے) اور کالے کوٹوں میں ملبوس سیاہ چمچماتی(یہ لمبی لمبی) کاروں میں براجمان فخر سے سر اٹھائے پھرتے (دندناتے) ہیں اور کسی عام شخص سے بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔
الیکشن کے دنوں میں انہیں عام لوگوں کے سامنے بچھ بچھ جاتے ھیں۔(آہ!کاش اس کیفیت کی مدت “ملازمت” میں توسیع ہوجایا کرے)یہ وہ حسین دور ہوتا ہے جب کچھ لوگوں کے ہزاروں روپے کا بجلی کا بل (ایک پیسہ خرچ کئے بغیر)یکمشت ادا ہوجاتا ہے۔ (جس کے لئے بیچارے لوگ مہینوں دفتروں کے چکر کاٹتے تھک جاتے ھیں)کچھ لوگوں کو ملازمت مل جاتی ہے تو کہیں کسی غریب کی بیٹی کی شادی کا فرنیچر تک گھر آجاتا ہے۔(یہ آفر ان لوگوں کیلئے ہوتی ہے جن کی فیملی میں کم سے کم بھی سات سے آٹھ لوگ ووٹ دینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔) اور تو اور جو لوگ الیکشن میں حصہ لینے والے شخص (صاحب) کے الیکشن کے دنوں میں قریب(چیلیبنے) ہوتے ھیں انکے گھر کچھ دن چولھا جلنا بند ہوجاتا ہے۔ ( قورمہ’ بریانی و دیگر “دیگی” کھانے انکے گھر ازخود بن بلائے ہی جو آجاتے ھیں وہ الگ بات ہے یہ بن بلائے بہت مزیدار ہوتے ھیں)جوں جوں ووٹ ادا کرنے کا دن قریب ہوتا چلا جاتا ہے توں توں الیکشن مہم تیز سے تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ (پیسے خرچ کرنے کی مہم) امیدوار (سفید سوٹ میں) گھر گھر جاکر لوگوں کا دل جیتتے ھیں(باتوں سے نہیں نوٹوں سے) پیسہ تو اچھے اچھوں کا ایمان ڈگمگا دیتا ہے۔ (اور اچھے اچھے لوگ بھی ووٹ بیچ دیتے ھیں۔)خیر جناب یہ مہم تو یونہی جاری و ساری رہیگی اب جب تک ہم ذرا بات کرتے ہیں۔
کچھ امیدواروں کے انتخابی نشان اور انکے عالیشان(الیکشان(الیکشن) دفاتر کی)۔ہم اپنے بچپن (جو زیادہ پرانا بھی نہیں) میں سب سے اہم انتخابی نشان “ہیر” (تیر) کو گردانتے تھے۔ اس کے بعد “سیر” (شیر) سے واقف ہوئے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے انتخابی نشان کے حوالے سے ہمیں اصل حیرت تو جب ہوئی تھی جب اسکول سے واپسی پر ایک امیداوار کے اتنخابی پوسٹرز پر اسکا انتخابی نشان ٹوٹا(لوٹا) دیکھا۔ اس وقت ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم نے سارا دن ایک ایک شخص کو پکڑ پکڑ کر یہ بات بتائی تھی اور ہنس ہنس کر پاگل (لوٹ پوٹ) ہوتے رہے۔ یہ بات ہمیں یونہی یاد نہیں آئی بلکہ اس کے یاد آنے کی ایک (اہم) وجہ ہے۔ بات کچھ یوں ہوئی کہ کچھ دن پہلے ہمارا ایک کام کے سلسلے میں گھر سے باہر جانا ہوا۔ سڑک پر دور سے ایک ٹرک آتا دکھائی دیا جس پر کافی مرد حضرات شوروغل(نعریلگانے) میں مصروف تھے ٹرک پر مختلف(انواع و اقسام) طرز کی چھوٹی بڑی بوتلیں لگا کر اسکو (ہر اینگل سے) سجایا گیا تھا۔
ہم تو دیکھ کر حیران ہورہے تھے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔؟قریب آنے پر ٹرک پر لگے پوسٹرز سے اندازہ ہوا کہ یہ ان صاحب کی حمایت میں پبلسٹی(الیکشن کمپین) ہورہی ہے جن کا انتخابی نشان بوتل ہے۔ سننے میں تو یہ بھی آیا کہ جن صاحب کا انتخابی نشان بالٹی تھا انکے انتخابی دفتر(منچلوں کے ڈیرے) کے باہر چھوٹی بڑی سینکڑوں چھوٹی بڑی بالٹیاں لگائی گئی ہیں اور آخری اطلاع آنے تک کہنے والے کہتے تھے کہ سجاوٹ اچھی خاصی پیاری(ہمیں تو خاصی بالٹیانہ لگی) لگ رہی تھی۔ ایک فرینڈ کی انتخابات میں حصہ لینے والے بالٹی کے انتخابی نشان والے ممبر کے متعلق فیس بک پوسٹ کچھ یوں تھی۔” بالٹی کے نشان والے امیدوار آج محلے ہر ہر گھر می” مفت بالٹی” دیکر گئے ہیں۔ یہ بالٹی بھی کوئی عام بالٹی نہیں ہے اسکے اوپر ” امیدوار کے دماغ کیطرح کا” مضبوط ڈھکن موجود ہے۔
چاہیں تو اس بالٹی میں “سپر باسمتی چاول” محفوظ کرلیں اور چاہیں تو اس میں نوزائیدہ کے کپڑے وغیرہ دھولیں۔”اس پوسٹ کے کمنٹ میں ایک صاحب کو ایک امیدوار(محلے دار) سے شدید شکایت تھی کہ انہوں نے اپنے انتخابی نشان سے متعلق ایک بھی شے تقسیم نہیں کی محترم کے مطابق ان صاحب کا انتخابی نشان “کھیرا” اوہ سوری” ہیرا” تھا۔ اب آپ ہی سچے دل سے بتائیں یہ سب دیکھ سن کر ہمیں ہمارے بچپن کا (پسندیدہ ترین)انتخابی نشان “ٹوٹا”(لوٹا) یاد نا آتا کیا؟ آتا نا۔۔۔ اور بالٹیوں کی تقسیم سے اسکی یاد ساتھ ساتھ ذہن ودل میں عجب ایک سوچ کلبلا رہی ہے کہ کیا “ٹوٹا” (لوٹا) نشان والے صاحب نے بھی ایسے ہی “ٹوٹے” تقسیم کئے ہونگے۔ (ہائے کاش ہمارا بچپن لوٹ آئے تو ہم یہ منظر ان گناہ گار آنکھوں سے ضرور دیکھیں)یہی نہیں بلکہ ہم نے تو کچھ سال پہلے(گزشتہ سے پیوستہ الیکشن میں)” تھریشر ککڑ”(پریشر ککر) کے نام کا ایک انتخابی نشان بھی برآمد کیا تھا۔ (کیا اس امیدوار نے بھی” ککڑ ” ککر کی تقسیم کی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ ؟)ہم اپنی ماضی کی(معصومانہ) غلطیوں پر ازحد پچھتا رہے ھیں۔(گھر کا کس قدر قیمتی سامان انتخابی امیدواران ںسے لے “لوٹ” کر جمع کیا جاسکتا تھا۔۔ )ہمارے ذہن میں ایک اور سوال بڑی شدت سے آرہاہے۔( ویسے زیادہ سوال پوچھنے والے لوگ ذہین ہوتے ہیں۔
آگے آپ لوگ سمجھدار ہیں) اگر کسی امیدوار کا انتخابی نشان ہاتھی ہوا تو وہ کتنے ہاتھی تقسیم کرے گا؟( ہمیں تو گھڑ سواری زیادہ پسند ہے ہم مطلوبہ امیدوار سے کہہ” سمجھا کریں نا منت ترلا کرلینگے” دینگے کہ ازراہ کرم ہمیں ہاتھی کی جگہ گھوڑا عنایت فرمادیں) ویسے اکثر ایسی (تقسیمی) سرگرمیوں کے موقع پر ہم موقع(جائے وقوعہ ) سے غیر حاضر(پوشیدہ) ہوتے ھیں۔ جسکا ہمیں ہمیشہ افسوس(صدمہ) ہی ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسا بس ہمارے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
اب ہمارے ذہن میں انتخابی نشان کو لیکر ایک اور بات گردش کررہی ہے ( کیا کریں ذہین جو ٹہرے ) کہ مستقبل قریب میں عین ممکن ہے امیدواروں کے انتخابی نشان آلو , گاجر اور مولی ہوں (چلیں اس بہانے کچھ عرصہ سبزی تو مفت تقسیم ہوا کرے گی)تو ہماری ناقص عقل اس بات پر غوروفکر کرنے میں مصروف ہے کہ مولی ,گاجر,ٹنڈے ,کدو کے انتخابی نشان بن جانے کی صورت میں ان سے انتخابی دفاتر ٹرکوں اور گاڑیوں کو کس کس طرح سجایا جاسکے گا۔(ہم بھی ہیں مصروف سوچ ذرا آپ بھی سوچئیے۔)
تحریر: صباء عیشل، فیصل آباد