counter easy hit

امریکی صدرٹرمپ کا انتخاب

امریکی الیکشن ختم ہو گئے ، غیر یقینی اُمید وار ڈونلڈ ٹرمپ جو ری پبلکن نہ ہوتے ہوئے بھی مجبوراً بن گئے اور صدارتی الیکشن جیت کر سب کو حیرت میں ڈال کر اپ سیٹ کر دیا۔ گزشتہ 2ماہ سے میں امریکہ اور کینیڈا میں اپنی 8ویں تصنیف مکمل کرنے میں مصروف تھا ۔ اتفاقاً الیکشن کمپین شروع ہو گئی تو میں بھی اکثر ڈیموکریٹ اور ری پبلکن نمائندوں کی ڈیبیٹ بہت غور سے سنتا تھا۔ دوسرے دن سیاسی تجزیہ نگاروں ، عوامی رائے دہندگان کا رد عمل پڑھتا تھا ۔ اسی دوران میں نے 2اکتوبر کے کالم “امریکہ کا لیکشن 2016ء “میں ڈونلڈ ٹرمپ کے نتائج کے بارے میں تحریر کیا تھا کہ تمام منفی رویے جو انہوں نے چین، میکسیکوکے عوام اور مسلمانوں کے بارے میں اختیار کئے اور عورتوں کے خلاف محاذ

کھولا وہ گورے امریکن کو اپنا ووٹرز سمجھتے ہوئے صرف ان کے مفاد کی باتیں کر رہے ہیں، جو بہت اہم نکتہ ہے جس کو سب نے نظر انداز کر دیا تھا ۔ پھر وہی ہوا کہ پہلی مرتبہ گورے امریکن جو عام طور پر الیکشن سے دور رہتے تھے اپنے مفاد میں صبح سے ہی لائن میں لگ کر ووٹ ڈالنے گئے اور امریکہ کے الیکشن کے قانون کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ سوا 2لاکھ ووٹ ہیلری کلنٹن سے کم لے کر بھی الیکٹرول ووٹس سے کامیاب ہو گئے ۔ امریکہ میں ہر ریاست میں آبادی کے لحاظ سے مخصوص تعداد میں گنتی کے لئے الیکٹرول ووٹس کی تعداد مقرر ہے جو جس ریاست میں 50.1فیصد ووٹ لے گا وہ پورے کے پورے ووٹ اُسے مل جائیں گے۔ مثلاً ایک ریاست فلوریڈا میں 20لاکھ افراد ہیں تو اس کے جتنے یونٹس بنتے ہیں اتنے الیکٹرول ووٹس لکھے جائیں گے۔ اگر پورے امریکہ کی 50ریاستوں میں 500الیکٹرول ووٹس ہوں تو 251ووٹ لینے والا کامیاب ہو گا ، چاہے اس کے عوامی ووٹ مخالف اُمیدوار سے کم ہی ہوں وہ صدر بننے کا اہل ہوگا۔
جیسا کہ ماضی میں الگور کے عوامی ووٹ زیادہ تھے مگر سابق صدر بش کے الیکٹرول ووٹس کے مقابلے میں کم تھے تو بش کامیاب قرار پائے تھے۔ با لکل اسی طرح پاکستان میں صوبۂ سندھ ، بلوچستان ، پختونخوا بشمول اسلام آباد کی آبادی ملا کر بھی صرف صوبۂ پنجاب کی آبادی اس سے زیادہ ہے اور قومی اسمبلی میں اکیلے ایک پارٹی کا کامیاب اُمیدوار اپنا صدر اور وزیر اعظم چن کر پورے پاکستان پر حکومت کر سکتاہے۔ ٹرمپ نے امریکی گوروں سے وعدہ کیا کہ میں چین سے امپورٹ بند کر کے واپس امریکی اداروں کو جو بند ہو گئے ہیں چالو کرواؤنگا ۔ آج امریکہ چین کی پروڈکٹس سے بھرا پڑا ہے اوراس کا 400ارب ڈالر کا مقروض بھی ہے ۔ اس نے کہا کہ میں میکسیکو کی سرحدوں پر بڑی بڑی دیواریں بنا کر غیر قانونی میکسیکن عوام کا راستہ بند کر دونگا اور ان دیواروں پر خرچ آنے والی رقم بھی میکسیکو سے وصول کرونگا۔ ہلیری کلنٹن چونکہ عورت تھی جو اس کا مقابلہ کر رہی تھیں ، بنیادی طور پر وہاں عورتوں کو کم درجے کا سمجھا جاتا ہے ، اس لئے عورتوں کو بھی اس نے ہدف بنایا ۔ آخر میں اس نے مسلمانوں کو شدت پسند، دہشت گرد کہہ کر کہا کہ ہم کسی بھی مسلمان ملک کے مظلوم امیگرینٹس بشمول شام ، عراق، فلسطین کو امریکہ میں قبول نہیں کرینگے ۔ اس نے کہا کہ میں پوری مسلم دنیا سے امریکی فوجوں کو واپس بلا لونگا اور ان ممالک کی امداد بند کر کے امریکہ میں نئی سڑکیں ، اسپتال اور تعلیمی ادارے بناؤں گا ۔ وہ سرمایہ جو افغانستان ، عراق ، فلسطین میں ضائع ہو رہا ہے اس سے امریکہ کے قرضے اتار کر نئے روزگار فراہم کرونگا ۔ اس نے پہلی مرتبہ غیر روایتی الیکشن کمپین میں کالے لوگوں کو منع کر دیا تھا کہ وہ اس کے جلسوں میںنہ آئیں۔ گویا وہ گورے امریکن کے حقوق سلب کر کے ان کے ملک پر بوجھ ہیں۔ اس نے ایران کو 50ارب ڈالرکی واپسی کو اوباما کی حماقت قرار دیتے ہوئے کافی تنقید کی تھی ، جس سے گورے امریکی خوش تھےکہ پہلی مرتبہ کوئی تو ہے جو ان کی نمائندگی کر رہا ہے ۔
وہ اپنے جلسوں میں ان کو کم پڑھے لکھے امریکی عوام کا نمائندہ کہتا تھا ، جبکہ وہ خود ارب پتی صنعتکار تھا۔ آخری دنوں میں جب ایف بی آئی نے ہلیری کلنٹن کے خلاف متنازع ای میلز کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تو وہ ٹرمپ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ، اس نے کھل کر آخری بحث میں ہلیری کلنٹن سے کہاکہ وہ اس کو جیل میں ڈالے گا مگر جب اچانک ایف بی آئی نے ای میلز کا معاملہ خارج کر دیا اور غالباً صدر اوباما کی مداخلت پر تو اس نے اعلان کیا کہ اگر وہ الیکشن ہار گیا تو وہ نتیجہ تسلیم نہیں کرے گا ۔ اس سے بھی خائف ہو کر صلح پسند امریکیوں نے کلنٹن سے ہاتھ اُٹھا لئے اور چپ چاپ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ ڈال دیئے ۔ یہ انوکھی دھمکی پہلی بار امریکی الیکشن میں سنی گئی ، اس نے بھی کام دکھایا۔ پھر میڈیا نے ٹرمپ کے خلاف محاذ پر محاذ بنا کر اس کو مظلوم بنا ڈالا تو دوسری طرف ہلیری کلنٹن کو جیتا قرار دے کر ر ی پبلکن کو اشتعال دلایا جس کی وجہ سے اس کے ووٹرز تو باہر نکلے اور ڈیموکریٹس یہ سمجھ بیٹھے کہ کلنٹن تو جیت ہی رہی ہے ، ان کے ایک ووٹ سے کیا فرق پڑے گا۔ وہ اپنے کاموں پر بے پروا ہو کر چلے گئے ، جس کی وجہ سے کلنٹن ان کے ووٹوں سے محروم ہو گئیں۔ اب صدر بننے کے فوراً بعد ٹرمپ کی یو ٹرن تقریر کا پہلا جملہ کہ میں سب کا صدر ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ رنگ ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر سب کی خدمت کرونگا۔ گویا وہ سب سیاسی وعدے تھے جو اس نے الیکشن جیتنے کے لئے عوام سے کئے تھے ۔
اس وقت امریکہ کی تاریخ میں غالباً پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ عوام نے الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیااور احتجاجی مظاہرے بہت سے شہروں میں شروع کر دیئے گئے، ٹرمپ کے گھر کا بھی گھیراؤ کیا۔ واشنگٹن میں بھی حامی اور مخالفین میں جھڑپیں ہو ئیں ۔ امریکی پرچم بھی جلا کر غصے کا اظہار کیا گیا ، امریکہ میں ہل چل تو میکسیکن ، چائینز ، پاکستانی کمیونٹی میں محسوس کی جا سکتی ہے ۔ عوام 9/11کی طرح دوبارہ کینیڈا کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ اگر پولیس ان مظاہرین پر قابو نہ پاسکی تو بہت سی ریاستوں میں امن و امان ختم ہو جائے گا اوراگر پھیلا تو امریکی تاریخ میں ایسا بحران آئے گا جو سنبھالے نہ سنبھلے گا۔ کیوں کہ یہ نتائج ہضم نہیں ہو رہے ۔ہمارے پاکستان میں بھی مایوسی پھیلی ہے ۔ غور کریں کہ سابق صدر کلنٹن نے جب بھارت کا دورہ کیا تھا تو صرف چند گھنٹوں کے لئے پاکستان آئےاپنی ایمبیسی اسلام آباد میں ذاتی سیکورٹی کے ساتھ رہے اور کیا دیا سوائے دھمکیوں اور ڈو مور ۔ جب اوباما 8سال رہے تو کیا دیا ۔ مزید افغانستا ن کا پریشر ، F-16دینے کا اعلان کر کے بھی بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور کانگریس نے بھی ان کی ایک نہ چلنے دی ۔ اب جب ہم روس کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں تو اعتدال ضروری ہے۔ مگر ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ اوباما نے بھی گوانتا نامو بے بند کرنے ، امریکی فوج کی واپسی کا وعدہ کیا تھا ۔ کیا افغانستان اور عراق سے فوجیں واپس چلی گئیں ؟ کیا غریب کالوں کے لئے مراعات کانگریس نے منظور کیں؟ خود اوباما کا ویٹو بھی کانگریس نے ویٹو کر دیا تھا۔ سارا کھیل ایجنسیوں اور سینیٹروں کے ہاتھ میں ہوتاہے۔عوام گھبرائیںنہیں امریکہ کی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ ٹرمپ کیا کر سکتے ہیں اور کیا کریں گے ، وقت کا انتظار کریں ۔ “ہنوز دلی دور است”

بشکریہ جنگ

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website