تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
عوام پر عمومی تاثر تو یہی ہے کہ پولیس کو دیکھ کر لو گ سر پر پائوں رکھ کر بھاگ پڑتے ہیں مگر راجن پور ،ڈیرہ غازیخان کی طرف تو حکمران طبقوں ان کے پروردہ ممبران اسمبلیوں نے ایسے جتھے اور گروہ تیار کر رکھے ہیںجو لوگوں کو اغوا ء کرکے خود ساختہ “علاقہ غیر “میں لے جاتے ہیں پھرانھی کی سفارش پر بھاری رقوم (بھتہ) لے کر انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔یہ کاروبار پو لیس کی چھتری کے نیچے اور حکومتی کار پردازوں کی نگرانی میں بہت ” احسن “انداز میں سالوں سے چل رہا ہے ۔اور یہ کوئی آج یا کل کی بات نہیں ہے بلکہ عرصہ دراز سے بدمعاشوں ،ڈاکوئوںنے رسہ گیرجاگیرداروں کی سرپرستی میںیہ کاروبار جاری و ساری کر رکھا ہے۔ممبران اسمبلی خواہ وزیر ہی کیوں نہ ہوں انہوں نے سیاسی مصلحتوں اور ذاتی مفادات کے تحت انھیں چھیڑنا کبھی مناسب ہی نہیں سمجھا۔اور لوکل پولیس خواہ ضلعی سربراہ ہی کیوں نہ ہوں توانھیں مقامی حکمران قیادت کے کہنے پر ہی چلنا ہو تا ہے۔ وگرنہ اسے پنجاب پولیس کے ہیڈ کوارٹر لاہور میں بطوراو ایس ڈی تعینات ہونا پڑتا ہے۔
بلکہ ایم پی ایزاورایم این ایز نے اپنی مرضی کا تھانیدار اور ایس پی لگوا رکھا ہو تا ہے۔جو اس کے ذاتی پالتو غنڈوں کا تحفظ اور مخالف سیاسی افراد کے بھی ایسے ہی پالتوئوں کو”تونا”لگا کر رکھتے ہیں ۔یہ عمل پاکستان بننے کے چند ہی سالوں بعد شروع ہو گیا تھا۔ان با اثر سیاسی جاگیرداروں وڈیروں اورتمن دارسرداروں نے اپنے اپنے مسلح غنڈے،ڈکیت،اغوا برائے تاوان وصول کرنے والے پالے ہوئے ہیں۔ جو حصہ بقدر جسہ خود وصول کرتے ،مقامی پولیس کو بھی” نذرانہ” پیش فرماتے اور اپنی غنڈہ اسٹیٹ کا خرچہ بھا ڑاچلاتے رہتے ہیں۔وگرنہ وہی محاورہ کہ چوری ،ڈکیتی ،جواء تو ہوہی نہیں سکتا جب تک مقامی تھانیدار کا اس میں حصہ نہ ہو۔
اب جو تھانیدار آج تک بھتہ خوروں سے اپنا حصہ وصول کیا کرتے تھے۔وہی غالباً راہ حق میں “شہید ” ہو گئے ہیں۔کہ جب حکم حاکم آیا کہ ان کو وہاں سے بھگائو یا ختم کرڈالوتو مشکل آن پڑی۔دو ہفتے سے اس علاقہ غیر میں بلا سوچے سمجھے اور احسن پلاننگ کیے آپریشن جاری ہے۔ہماری غریب پولیس کے سپاہیوں کے پاس وہی پرانی زنگ آلود بندوقیں ہیںجو چلتے چلتے فائر کرنا چھوڑ دیویں تو کوئی عجب نہیں۔جبکہ غنڈوں کے گینگ جدید ترین اسلحوں سے مزین۔اب آئی جی سکھیرا صاحب نے اپنی فورس کو تمن داروں اور سرداروں کے مخصوص اجارہ دارعلاقوں میں مقابلے کے لیے روانہ فرما دیا۔جب کہ مقامی پو لیس نے اپنی رپورٹ میںبغیرمؤثر پلاننگ کے چھوٹو گینگ پر حملہ کرنے سے منع کیا تھا۔
مگرچھوٹو شریف تک اس رپورٹ کے پہنچنے کے باوجودحملہ کر ڈالنے کا حکم صادر ہو گیا۔غریب سپاہی مرتے کیا نہ کرتے ۔وہ اسلحہ کی کمی کا رونا روتے رہے کمک کا وعدہ کیا گیا وہ پہنچائی ہی نہیں گئی۔کھانا تک بھی مقابلے میںاترے ہوئے سپاہیوں کو نہیں بھیجا گیا۔اس کا ذمہ دار کس کوٹھہرایا جائے گا؟واضح ہے کہ وزیر اعلیٰ اور آئی جی ہی اس کے ذمہ دارہیں۔جو پولیس ملازمین اور افسران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ ان کے قتل کا مقدمہ چھوٹو گینگ پر ہی نہیں بلکہ ان کی سر پرستی کرنے والے لوکل تمن دار وڈیروں اور سرداروں بمعہ وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب درج کیا جائے۔
شہید پولیس ملازمین کو زمانہ تو کیا یاد رکھے گا ان کے غریب اور بے روزگار بچے بچیوں کا بھی مستقبل میں کوئی ذمہ دار نہ ہو گا۔انکے لواحقین کو کچھ معاوضہ دینے کا اعلان تو سابقہ روایات کی طرح ہو گا مگر نہ کسی نے پہلے رقم دی ہے اور نہ اب دیگا۔سبھی جانتے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان اور یہ مخصوص علاقے بلوچستان سے ملحقہ ہیںاور یہ انھی سرداروں کی راجھدانیاں ہیں۔اور یہ سبھی ان کے اشاروں پر مار دھاڑ کرتے مخالفین کے بچوں کو اغوا کرتے اور وصولیاں فرما کر چھوڑ دیتے ہیں۔
دو ہفتے کی”جد جہد” پر اب رو نا کس بات پرہے اب بھی بااثر سیاسی حکمران افراد مزاری لغاری کھوسے و دیگرسرداران اپنے اپنے” رکھیل “بدمعاشوں کو تحفظ دینے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیںپولیس کو کاروائی کا حکم ہے اور وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ پر اس آپریشن کو ختم کرنے کاپریشر وگرنہ نون لیگ صاحبہ وہاں مشکل میں پڑ جائے گی۔جیسے چھوٹو گینگ آج مشہور نہیں ہوا بلکہ چھوٹے شریف کے پنجاب میں ڈنکہ بجنے کی طرح چھوٹو کا اس علاقہ میں ہمیشہ سے ہی ڈنکا بجتا چلا آرہا ہے۔
چھوٹو نے پولیس کے دو درجن اہم افسروں ،سپاہیوں کو یر غمال بنا رکھا ہے اب سانپ کے منہ میں “کرِلی”والا معاملہ ہے نہ نگلتے بنے،نہ اگلتے بنے اگر آپریشن ختم کیا جائے تو پھر حکمرانی کہاں گئی؟ بے عزتی اورروسیاہ علیحٰدہ ہو گا ۔اگر آپریشن جاری رکھتے ہیں تو وڈیرے ناراض اور لیگ صاحبہ متاثر ہوتی ہے۔وزیر سفیر نارا ض ہو جائیں گے جب کہ سیاسی حکومتوں کو ہر قیمت پر اپنے “گروپوں”سے بگاڑ برداشت نہیں ہوتی۔7 پولیس ملازمین کی شہادت اورد ودرجن سے زائد افراد کا یرغمال بنایاجاناچھوٹاواقعہ نہ ہے۔ یہ واضح طور پر انتظامیہ کی نامرادی ، ناکامی اور واضح ناقص حکمت عملی ہے۔ گو سیاست رواداری کا نام ہے مگر غندہ عناصر کو نتھ ڈال کر رکھا جانا چاہیے تھا۔
Nip the evil in the budبرائی کو جڑ سے اکھاڑ دو یہاں پر سیاسی مصلحتوں کے تحت ایسانہ کیا گیا۔اب شہادتوں زخمیوں کے ذمہ دار کون ہوں گے؟کیا شہباز شریف آئی جی پنجاب محکمہ دا خلہ پنجاب کے افسران مستعفی ہونا پسند فرمائیں گے۔کبھی نہیں ہر گز نہیں تو پھر”ہور چوپو”کی طرح مزید نقصان برداشت کرو ۔پولیس افسران اور سپاہی جان سے گئے ہیں ان کے بیوی بچوں کی دعائیںاور دہائیاںتو آسمان سے ٹکر رارہی ہیں۔
ان کے لواحقین خداتعالیٰ کے حضورسر بسجود ہی نہیں بلکہ دعائیں کر رہے ہیںکہ جنھوں نے انھیں “گڑھے” میں دھکادیا ہے خدا ان سے پو چھے نپٹے۔ٍبڑ ا بھائی لیک نے پکڑ رکھا ہے اور چھوٹا بھائی چھوٹو گینگ کے پریشر میں ہے خدا خیر کرے۔قوم دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ شہید پولیس والوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری