تحریر: اقبال کھوکھر
جب برادر کلاں ایس ایم صابر کی وساطت سے کرسچن لائیرز ایسوسی ایشن پاکستان کے سابق صدر راجہ نتھانئیل گل ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی تصنیف کردہ ”مسیحی اور تحریک پاکستان” تبصرہ کے لئے موصول ہوئی تو مجھے گماں تھا کہ یہ کتاب بھی ایک روایتی مواد کی حامل ہوگی مگر کتاب کے ابتدائی چند صفحات نے میری پہلی رائے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مجھے مزید صفحات کے مطالعہ پر مجبور کردیا۔ کتاب کے سرورق سے کہیں زیادہ وہ تاریخی حقائق ہیں جنہیں مصنف نے نہایت عرق ریزی سے اپنی قلم سے بیان کرنے کی سعی کی ہے جو یقینا مسیحی قوم کے مستقبل کو تاریک بنانے والے منفی عناصر کی مدلل حوصلہ شکنی ہے۔ ڈیڑھ سو سے زائد صفحات پر مبنی”مسیحی اور تحریک پاکستان” میں پاکستان میں بسنے والی اقوام کو تحریک پاکستان سے قیام پاکستان اور تشکیل پاکستان سے تعمیرپاکستان میں بالعموم اقلیتوں اور بالخصوص مسیحیوں کے کردار کی اصل تصویر دکھانے کی جو کوشش کی گئی ہے وہ لائق تحسین بھی ہے اور مسیحی قوم کے لئے باعث فخر بھی۔
کیونکہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں دیوان بہادر ایس پی سنگھا، مسٹرسی ای گبن، مسٹر فضل الہی، جوشو افضل دین ایڈووکیٹ، چوہدری چندولعل ایڈووکیٹ، کے ایل رلیارام،بی لعل رلیارام،ایف ای چوہدری،ہیرالعل حیات، ایفرڈپرشاد، بینربرو اجیمز، ڈاکٹرجان متھائی، ڈبلیو سی بونرجی،سرہنری گڈنی،پوتھن جوزف،شام سندر سنگھ البرٹ، سرجوزف بر، بی جی ہارنی، رائے بہادر پانیر سکورن، ڈاکٹر سکاٹ جیسے عظیم راہنمائوں کے ساتھ ساتھ ،مسز ایس پی سنگھا،مسز کے ایل رلیارام،ڈاکٹر اینی بسنت،راج کماری امرت کور، مس ٹھاکرداس، ڈاکٹر آرمنی ،مس منگت رائے جیسی مدبر اورفہیم مسیحی خواتین نے بھی تعلیم، ادب، عدلیہ، افواج، صحت، قانون، سماجیت وسیاست سمیت ہر شعبہ زندگی میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مصنف نے جس طرح ماضی کی 170 سالہ برصغیر پاک وہند تاریخ کو کھنگالنے کے بعد مکمل ذمہ داری سے حقائق سامنے لانے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ مستقبل میں بہت سے حلقوں کی پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے متعلق آراء وخیالات کو تبدیل کرنے میں معاونت کرے گا۔اصل میں مسیحی حب الوطنی کی یہ ایماندارانہ تصنیف کو اپنے حصے کا کردارادا کرنے کی بہترین مثال قراردیا جاسکتاہے۔”مسیحی اور تحریک پاکستان” مسیحی ادب میں ہی نہیں قومی ادب میں ایک گرانقدر اضافہ ہے جوآنے والی نسلوں کے لئے ایک دستاویز کی صورت ہوگی۔ کتاب کی افادیت واہمیت کے اعتبار سے اسے قومی لائبریری سمیت تمام صوبائی اداروں میں پڑھنے کے لئے فراہم کرنے میں سرکاری کردارسامنے آناچاہیے۔
اس کتاب کے مطالعہ سے ان منفی قوتوں کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان صرف مسلمانوں کی جدوجہد کانتیجہ ہے۔مصنف نے بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی20نومبر1942ء کو مسیحی ارکان اسمبلی سے گفتگو (یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان صرف مسلمانوں اور مسیحیوں کی کوششوں اور قربانیوں کاثمر ہے۔مسلمان اور مسیحی ہی اس کے حقیقی وارث ہیں اور اس گھر(پاکستان)کی بنیاد میں ان کاخون شامل ہے۔آپ پاکستان بنانے میں مسلم لیگ کاساتھ دیں توقیام پاکستان کے بعد مسلمان، مسیحیوں کے احسان کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔)کو جس انداز میں من وعن پیش کیا ہے وہ عدم برداشت کے خاتمے اور تاریخ سے آشنائی میں ممدومعاون ہوگا۔یہ بتایا جانا ضروری تھا کہ مسیحیوںکا نہرورپورٹ کو مسترد کرنا،مسیحی آبادیوں کا مسلم علاقوں میں شمار کیا جانا،متحدہ پنجاب اسمبلی میں قیام پاکستان کے لئے حمایت میں 91ووٹوں میں تین مسیحی ارکان اسمبلی کے فیصلہ کن ووٹ کو قائداعظم نے سراہا اورپاکستان کے ابتدائی انتظامی،سیاسی وسرکاری اداروں میں مسیحی شخصیات کاتقرر اس کا ثبوت ہے۔
مصنف کا قلم اس خیال کی توثیق کرتا ہے کہ پاکستان بنانے میں مسلمان (بڑا بھائی) اور مسیحی (چھوٹے بھائی) کا یکساں کردار ہے جسے فراموش کردیا گیا ہے۔ اسی لئے مصنف لکھتے ہیں کہ میں نے بڑے بھائی کو احساس دلانے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو گلے لگائے تاکہ اس کے آنسو دھرتی پر گرنے کی بجائے اس کے دامن میں گریں تاکہ بڑے بھائی کے دل میں محبت پیدا ہو۔مسیحیوں کی وفاداری،حب الوطنی اور ملک کی خاطر قربان ہونے والے کردار کسی بھی پاکستانی شہری سے پوشیدہ نہیں۔وقت نے ثابت کیا کہ مسیحی قوم ظلم وجبر،استحصال ،دبائو،تکالیف اور بے پناہ مسائل کا شکار ہونے کے باوجود بھی روزاپنی عبادت گاہوں وگھروں میں ذاتی واجتماعی سطح پر پاکستان کی سلامتی،خوشحالی اور ترقی کے لئے دعائیں کرتی ہے۔میں مصنف کو اس تاریخی کاوش پر مبارکبادپیش کرتے ہوئے ان سے مزید ایسی تصانیف وتخلیق کی امید کرتا ہوں۔٭٭٭
تحریر: اقبال کھوکھر